دوہرا معیار تو ختم ہونا چاہیے

1262

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سوال اٹھایا ہے کہ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے کیسے نکالا گیا۔ دوہرا معیار نہیں چل سکتا۔ عدالت نے کہا کہ نیب اور وفاقی حکومت سب کے ساتھ یکساں سلوک کرے۔ درخواست گزار آدم امین کا نام کیوں ای سی ایل میں برقرار رکھا گیا۔ جج محسن اختر کیانی نے سماعت کے دوران سوال کیا کہ شہباز شریف، اسحق ڈار اور سلمان شہباز کے نام کس پالیسی کے تحت ای سی ایل سے نکالے گئے۔ عدالت نے دلچسپ سوال اٹھادیا ہے لیکن یہ سوال صرف ایک معاملے تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ خود اسلام آباد ہائی کورٹ دیکھے کہ تجاوزات کو ریگولرائز کرنے کے معاملے میں بنی گالا اور دوسرے شہریوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا گیا تھا۔ عدالت یہ بھی دیکھے کہ حق دو گوادر تحریک کے رہنما مولانا ہدایت الرحمن کے خلاف جھوٹے مقدمات بناکر انہیں قید کردیا گیا لیکن ان کی ضمانت نہیں ہورہی اور لوگوں کے قاتل کو وی آئی پی طریقے سے عدالت میں بلاکر ضمانت دی گئی۔ اسی طرح جنرل پرویز کو ملک سے باہر جانے دینے، میاں نواز شریف کو جانے دینے کی باتیں وہ لوگ بھی کرتے ہیں جو ان مواقع پر خود حکومتوں میں تھے۔ حق دو گوادر تحریک کے بارے میں تو ایک دنیا گواہ ہے کہ اس پوری تحریک کے دوران نہ کسی سے چندہ لیا گیا نہ بھتہ۔ اور نہ کسی کی جائیداد یا کسی کی گاڑی دکان وغیرہ کو توڑا گیا۔ وہ عدالت میں ضمانت کے لیے پیش ہوئے تو ان کی ضمانت منسوخ ہوگئی۔ یہ وہی اسلام آباد ہے جہاں زمین ایسے بانٹی جارہی ہے جیسے دادا کی دکان پر فاتحہ ہوئی ہو۔ کیا یہ دوہرا معیار نہیں کہ زراعت کے فروغ کے لیے مختص زمینوں کو فارم ہائوسز اور بڑے بڑے محلات کے لیے فروخت کردیا جائے۔ پورا اسلام آباد غیر قانونی پارکنگ سے بھرا ہوا ہے اس اسلام آباد میں سی ڈی اے حدود میں دلاور مسیح اور تنوک مسیح کو سرکاری فاریسٹ گارڈ کے ذریعے گرفتاری کے بعد ایک اسپیشل مجسٹریٹ کے روبرا پیش کیا گیا کہ وہ لکڑیاں کاٹتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ ان کے قبضے سے آری بلیڈ اور ان کی موٹر سائیکل بھی ضبط کرلی گئی۔ جرم اتنا سنگین تھا کہ لمحوں میں فیصلہ سناکر انہیں اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ اس ملک میں دوہرا معیار یہ ہے کہ اسلام آباد کی کھربوں کی زمین کوڑیوں میں پلازوں کے لیے بیچ دی گئی اور غریب لکڑ ہارے کو فوراً جیل ہوگئی۔ اس ملک کا دوہرا معیار ملاحظہ فرمائیں کہ گوادر میں جماعت اسلامی نے بلدیاتی انتخابات جیت لیے تو ان کو اختیار دینے اور بلدیہ تشکیل دینے کے بجائے ہدایت الرحمن کو جیل بھیج دیا گیا۔ کراچی میں جماعت اسلامی نے میدان مارلیا تو اس سے آر اوز اور ڈی آر اوز کے ذریعے اور دھوکے سے دوبارہ گنتی کے ذریعے مینڈیٹ چھینا جارہا ہے۔ یہ سب کچھ ساری عدالتوں، انصاف کے علمبرداروں، عوام کے رکھوالوں آئین کے محافظوں کی آنکھوں کے سامنے ہورہا ہے۔ اور یہ ایک دو دن کا کھیل نہیں ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن کا دھرنا بھی مہینے بھر کا تھا اور ان کی گرفتاری کو بھی مہینے سے زیادہ ہوگیا ہے لیکن کہیں سے اس دوہرے معیار پر آواز نہیں آئی۔ کراچی میں بلدیاتی الیکشن کے باوجود بلدیہ قائم نہیں کی جارہی۔ ابھی تک الیکشن کمیشن مینڈک تول رہا ہے۔ چار آدمی ادھر نکال کر ڈالے جاتے ہیں تو وہ دوسری طرف کبھی دوسری طرف سے چار بڑھادیے جاتے ہیں تو کبھی ایک طرف کم کردیے جاتے ہیں یہ الیکشن کمیشن چند یوسی الیکشن سپروائز نہیں کرسکتا۔ اس کی دھاندلی کو سمجھ بھی نہیں سکتا اور اگر سمجھتا ہے تو وہ بھی ملا ہوا ہے۔ یہ ترازو کے پلڑے ادھر ادھر کیوں کررہے ہیں۔ فیصلہ کیوں نہیں کرتے یہ قومی انتخابات کیسے کرائیں گے۔ اگر 11 یوسیز میں الیکشن نہیں کراسکتے تو پھر قومی انتخابات کیسے کرائے جائیں گے۔ یہ سارے دوہرے معیارات ہیں عدالتوں میں پیشی کے لیے دوہرے معیارات ہیں۔ عام آدمی کے لیے کچھ ہے اسحق ڈار، شہباز شریف، جنرل پرویز، رائو انوار اور عمران خان کے لیے کچھ معیار ہے۔ یہ دوہرا معیار تو برسہا برس سے چلا آرہا ہے یہ تو خدا کا کرم ہے کہ اس ناانصافی کے باوجود پاکستان مکمل تباہ و برباد نہیں ہوتا ورنہ ایسی ناانصافیاں تو ملکوں کو الٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ افسوس اس وقت زیادہ ہوتا ہے جب کسی عدالت میں سوال کیا جاتا ہے کہ جنرل پرویز کو ملک سے کس نے جانے دیا۔ نواز شریف کو ملک سے باہر کس نے جانے دیا۔ شہباز شریف کا نام ای سی ایل سے کس نے نکالا۔ حالانکہ جب یہ سارے کام ہورہے ہوتے ہیں یہ سوال کرنے والے اس وقت سب دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن جب چڑیاں کھیت چگ جاتی ہیں تو یہ سوال بہت افسوس ناک ہوتا ہے کہ کیسے ہوا۔ کس نے اجازت دی کس کو حق ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ دوہرا معیار صرف عدلیہ میں نہیں ہے۔ اسکول، مدرسے، یونیورسٹی، تھانے، سرکاری دفاتر، سڑک، بازار غرض ہر جگہ ہے۔ پھر ہم دوسروں سے کیا شکوہ کریں۔