ثاقب نثار کا عدلیہ پر الزام

1083

سابق چیف جسٹس پاکستان جناب جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ میں نے عمران خان کو تمام معاملات میں صادق اور امین قرار نہیں دیا تھا۔ وہ آج کل سماجی ذرائع ابلاغ پر چلنے والے پروپیگنڈنے پر غصے میں آگئے اور کہنے لگے کہ فیض کون ہوتا ہے مجھ پر دبائو ڈالنے والا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں جنرل باجوہ سے اس پر بات کروں گا کہ نواز شریف کو نااہل کرانے کے لیے جنرل فیض حمید نے دبائو ڈالا تھا۔ میں کیوں عمران کے لیے عدلیہ میں لابنگ کروں گا۔ مجھے اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیا ہے کہ میں اب کسی کو انٹرویو نہیں دوں گا میرے مرنے کے بعد ایک کتاب شائع ہوگی جس میں تمام حقائق ہوں گے۔ 1997سے چیف جسٹس بننے تک کی تمام کہانی لکھوں گا وہ برہم تھے اس لیے یہ بھی کہا کہ عدالتوں پر وہ لوگ حملے کررہے ہیں جنہیں قانون کا زیر زبر نہیں معلوم۔ لیکن وہ اب کتاب نہ لکھیں۔ انہوں نے کتاب سے بھی بڑی بات کہہ دی کہ جو شخص آج عدالتوں پر حملہ آور ہے وہ کبھی عدالتوں کا پسندیدہ رہا ہے۔ اسے ہمیشہ عدالتوں سے ریلیف بھی ملتا رہا اس جملے کے بعد کسی کتاب کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے بتادیا کہ عدالتوں کا پسندیدہ فرد ہو تو اسے ریلیف ملتا ہے اور پسندیدہ نہیں ہو تو اسے ریلیف نہیں ملتا۔ صرف ایک مقدمے کے سوا اسے سب مقدمات میں ریلیف ملا۔ اس بات کا مطلب تو یہ ہے کہ انہیں عدالت میں پیش ہوکر عدلیہ کا چہرہ بگاڑنے کی وضاحت کرنی پڑے گی۔ کس کے دبائو میں ایک مقدمے میں ریلیف نہیں دیا گیا۔ ثاقب نثار نے تو عدلیہ پر براہ راست الزام لگایا ہے کہ اس کا پسندیدہ کوئی شخص تھا۔ تو پھر اپنے واٹس ایپ ہیک ہونے اور سوشل میڈیا کی مہم پر شکوہ کیسا آج کل کسی اور پسندیدہ کے لیے سب کچھ ہورہا ہے۔