ایم کیو ایم کاپشیماں ہونا

373

ایم کیو ایم کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول نے کہا ہے کہ ہر پاکستانی برابر کا حقدار ہے ڈومیسائل کا نظام ملک کو جوڑ کر نہیں رکھ سکتا۔ انہوں ے اپنی پارٹی کی پرانی خواہش کا برملا اظہار کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ ہم پر مہربانی کرے عمران خان پروجیکٹ ناکام ہو گیا ان لوگوں پر دست شفقت رکھنا چاہیے تھا جن کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے اس موقع پر مصظفیٰ کمال اور فاروق ستار نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور عمران خان پر خوب تنقید کی اور کہا کہ درست مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن قبول نہیں۔ ایم کیو ایم ہو یا اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ کوئی بھی پارٹی وہ ہر عوام دشمن کام کر کے بھی عوام دوست بن جاتی ہے اور میڈیا کا جادو اسے چند ہی دنوں میں سارے جرائم سے پاک کرکے عوام کا دوست بنا دیتا ہے۔ ایم کیو ایم نے کوٹہ سسٹم یا ڈومیسائل کی مخالفت ایسے کی ہے جیسے وہ اس کی دشمن ہے۔ اے پی ایم ایس او سے ایم کیو ایم تک کا سفر اس نے اسی کوٹا سسٹم کی مخالفت کے نام پر کیا تھا لیکن حکومت میں آتے ہی اس کے مختلف اداوار میں کوٹا سسٹم کو اسکے سرکاری ہوتے ہوئے یا سرکاری اتحاد کے ساتھ ہوتے ہوئے توسیع دی گئی اور تین بار دی گئی۔ متنازع مردم شماری کے وقت بھی ایم کیو ایم اقتدار کا حصہ تھی۔ آخر کیا وجہ ہے غلط مردم شماری، غلط حلقہ بندیوںکے نظام کے بننے میں تو وہ ساتھ تھی اب جب کے اس کے خلاف عوامی سطح پر آواز اٹھ گئی ہے تو وہ بھی اس آواز میں آواز ملانے لگے ہیں۔ ریاست نے تو ان کے ساتھ ہمیشہ شفقت کی ہے لیکن ایم کیو ایم نے عوام پر کب شفقت کی صرف غیر مہاجر نہیں مہاجروں کو بھی قتل کیا اور کروایا اور پڑھے لکھے لوگوں کو دہشت گرد بنا دیا۔ 30 سال میں 35 ہزار نوجوان مارے گئے۔ اس شہر کو بھتہ، بوری بند لاشوں اور ہڑتالوں کا شہر بنا دیا گیا تھا۔ ایم کیو ایم کے اس یوٹرن پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ