سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بھی وہی بات کہہ دی جو پاکستان کے اکثرسیاستدان حکومت سے باہر نکلنے کے بعد کہتے ہیں عمران خان بھی نکالے جانے کے بعد یہی بات کنے لگے جو نواز شریف اور ان کے ساتھی اقتدار سے نکلنے کے بعد کہتے تھے کہ سیاست میں فوج کا کردار کم ہونا چاہیے لیکن یہ لوگ یہ کردار ختم ہونے کی بات نہیں کرتے ۔ مفتاح اسماعیل نے کہا تو درست ہے کہ فوج کا کردار کم ہونا چاہیے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ عدلیہ اور میڈیا کو بھی فوج ہی چلائے ۔انہوں نے این ایف سی ایوارڈ کا بھی از سر نو جائزہ لینے کی بات کی ہے اور بہت سی اچھی اچھی باتیں کی ہیں لیکن انہیں فوج کے کردار کو کم کرنے کا خیال ذرا دیر سے آیا جب تک عمران خان یہ شور کر رہے تھے اس وقت تک یہی کہا جا رہا تھا کہ وہ مجھے کیوں نکالا کا غصہ کر رہے ہیں لیکن ان کو بھی اب خیال آیا ہے یا پچھتاوا ہے کہ میں تو فوج سمیت ہر ایک سے بات کرنے کو تیار ہوں لیکن آرمی چیف مجھ سے بات کرنے پر تیار نہیں ۔ گویا اب وہ بھی فوج کے سیاست میں کردار کو بڑھانے پر متفق ہیں۔ وہ پہلے بھی اس کے قائل تھے اور مفتاح اسماعیل اور ان کے لیڈر بھی اس کے ہی قائل ہیں کہ فوج صرف ہمیں اقتدار میں لانے کے لیے تھوڑا سا کردار ادا کرے بس اس کا کردار اس کے بعد ختم ہو جانا چاہیے ۔ لیکن فوج کو جب یہ کردار پیش کیا جائے گا تو فوج اس کا معاوضہ بھی چاہے گی اور یہ معاوضہ پیسوں کے بجائے اختیارات میں شراکت ہوگا اور یوں وہی چکردوبارہشروع ہو جائے گا ۔ فوج کا کردار کم کرنے کے لیے سیاستدانوں کو جرأت اہلیت اور اپنی صلاحیت بہتر بنانا ہو گی۔ ان کے پاس اہلیت ہے نہ ان کا کردار ایسا ہے کہ وہ فوج کو روک سکیں ۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے سہارے23کروڑ عوام پر حکومت کر رہے ہیں اور عوام اپنے ہاتھوں سے اقتدار کا ڈنڈا فوج اور اس کے پسندیدہ سیاست دانوں کو دیتے ہیں۔