جان بچانے والی ادویہ سمیت دوائوں کی قلّت

565

پاکستان بدترین سیاسی معاشی بحران کا شکار ہے،اس کے خلاف جہاں بیرون طاقتیں اپنا کھیل رچا رہی ہیں وہاں اس زبوں حالی کا بڑا سبب ہماری اسٹیبلشمنٹ اور ان کے گملے میں آگے سیاست دان بھی ہیں،اس وقت صورتحال یہ ہے کہ کوئی شعبہ بہتر صورت حال میں نہیں ہے جس میں صحت کا شعبہ بھی ہے شامل ہے، وطن ِ عزیز میں صحت ِ عامہ کا نظام مستقل بحران کا شکار ہے۔ مناسب انفرا اسٹرکچر اور وسائل کی پہلے ہی کمی تھی، اب ملک بھر میں جان بچانے والی 131 ادویہ کی بھی شدید قلّت پیدا ہوگئی ہے۔ ابھی بلوچستان سے خبر تھی کہ وہاں سر درد، دماغی آرام، شوگر، کینسر، بچوں کے بخار اور بچوں کی الرجی کی ادویہ دستیاب نہیں ہیں، جب کہ بیش تر دوائیں ذخیرہ کرلی گئی ہیں تاکہ جب قیمتوں میں اضافہ ہو تو انہیں مارکیٹ میں لاکر زیادہ مال کمایا جائے، اور یہی صورتِ حال پورے ملک میں پیدا ہورہی ہے کہ مارکیٹوں میں جان بچانے والی ادویہ میں دل کے امراض، بلڈ پریشر، شوگر، نفسیاتی امراض، گائنی، پھیپھڑوں اور موذی امراض کی دوائیں ناپید ہیں جبکہ ایم آر آئی اور سی ٹی اسکین کے انجکشن بھی مارکیٹ سے غائب ہیں، اور جو مل رہے ہیں وہ کئی گنا زیادہ قیمت میں مل رہے ہیں، یعنی صورتِ حال تصور سے زیادہ خراب ہے۔ وزارتِ صحت کے حکام نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو ایک لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مارکیٹ میں ناپید ادویہ زیادہ تر ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیوں کی ہیں، اکثر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ادویہ کی قیمتوں کے تنازع پر پیداوار بند کردی ہے۔ اس سے قبل یہ خبر آئی تھی کہ تین درجن سے زائد دوا ساز کمپنیوں نے خام مال کی عدم دستیابی اور قیمتوں میں اضافے کے کیسز میں تاخیر کا حوالہ دیتے ہوئے پیداوار جاری رکھنے سے قاصر ہونے کا اظہار کیا اور کہا کہ حکومت اور ڈریپ عوام کو تحفظ دینے اور موجودہ صورتِ حال میں بہتری کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے میں ناکام رہے اور یہ امر دوا ساز کمپنیوں کی تباہی کا سبب بنا، کیوں کہ وہ عام لوگوں کے لیے مناسب قیمتوں پر محفوظ، موثر اور معیاری علاج کے سامان کی مزید پیداوار کو یقینی بنانے سے قاصر ہیں۔ اس ضمن میں وزارتِ صحت کے حکام نے ڈریپ سے درخواست کی ہے کہ ادویہ کی بلاتعطل فراہمی کے اقدامات کیے جائیں۔ دوسری جانب ڈریپ حکام کا کہنا ہے کہ دوائوں کی عدم دستیابی کے معاملے کا بغور جائزہ لیا جارہا ہے، ناپید ہونے والی اکثر ادویہ کی قیمتوں میں اضافے کی ڈریپ نے سفارش کررکھی ہے۔ یہ صورتِ حال خاص طور پر پاکستان کے دیہی اور کم سہولت والے علاقوں میں مزید خطرناک اور تشویش ناک ہوسکتی ہے، جہاں زندگی بچانے والی ادویہ اکثر پہلے ہی دستیاب نہیں ہوتیں اور لوگ اپنی بیماریوں کے علاج کے لیے درکار دوائوں تک رسائی حاصل نہیں کرپاتے۔ ان ادویہ تک رسائی کا فقدان صحت ِ عامہ کے بنیادی ڈھانچے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، کیونکہ اس سے لاکھوں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ زندگی بچانے والی ادویہ بہت سے لوگوں کے لیے واحد امید ہیں جو جان لیوا بیماریوں کا شکار ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت کو اس مسئلے کے حل کے لیے فیصلہ کن قدم اٹھانا چاہیے اور ٹال مٹول کی پالیسی سے باہر نکلنا چاہیے تاکہ عام آدمی کو دوائیں بلاتعطل دستیاب ہوں، اور اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر یا زیادہ قیمتوں پر فروخت نہ ہوں، کیونکہ ملک کے عوام پہلے ہی بدترین معاشی صورتِ حال سے گزر رہے ہیں، ایسے میں اگر حکومت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے مل کر معاملہ حل کرلیا تو لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔