منی بجٹ اور عوام کی حالت زار

356

میں گزشتہ 25 سال کے اخبارات میں مستقل مہنگائی میں اضافے اور اس پر احتجاج کی صدائیں دیکھ رہا ہوں، مگر مجال ہے جو کبھی مہنگائی کی جگہ قیمتیں کم ہونے کے دن دیکھے ہوں۔ سود پر، قرضوں پر چلنے والی پر تعیش معیشت ایسی ہی ہوتی ہے۔ مہنگائی اس کا فطری و لازمی انجام ہے، جس نے قرض دیا ہے وہ اپنے طریقے سے وصول تو کرے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ابھی سندھ کے حالیہ دورے میں عوامی اجتماعات میں عوام سے پوچھ رہے تھے کہ کیا آئی ایم ایف کا قرضہ آپ نے لیا ہے؟ تو سب نے کہا نہیں۔ ہمیں تو ایک روپیا بھی نہیں ملا، مگر یہ حقیقت ہے کہ اب اربوں روپے کا سود عوام کو نچوڑ کر نکالا جائے گا۔ حکومت کی جانب سے پہلے 35 روپے اور کچھ ہی دنوں کے بعد 22 روپے فی لیٹر پٹرول کی قیمت میں اضافے پر شدید ردعمل ہے۔ مہنگائی ظلم و ناانصافیوں اور محرومیوں کے مارے عوام ابھی اس صدمے سے باہر ہی نہیں آسکے تھے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں پر مبنی منی بجٹ پیش کردیا۔ منی بجٹ سے مہنگائی کی نئی لہر آئی ہے جس نے بنیادی غذائی اشیاء دالیں، چاول، گھی، آٹے، چائے پتی، دودھ، انڈے، مرغی و دیگر سمیت سب کی قیمتوں کو بڑھاوا دے دیا۔ 28 دن بعد مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان شریف کی بھی آمد آمد ہے، تب تک مہنگائی کہاں تک پہنچے گی اس کی پیشگی اطلاع پی ڈی ایم اتحاد کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کابینہ کے ساتھ پریس کانفرنس میں کچھ یوں دی ’’آئی ایم ایف سے معاملات طے پاجانے کے نتیجے میں مہنگائی مزید بڑھے گی۔ (جسارت 23 فروری) اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب تک جو مہنگائی ہوئی ہے وہ تو صرف ٹریلر تھا! چند دن قبل وزیر خزانہ کا اعترافی بیان آیا کہ ملک میں مہنگائی قابو سے باہر ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے اور مفتاح اسماعیل سے وزارت لیکر معیشت کے ماہر اسحاق ڈار کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپنے سے قوم کو یہ امید ہوچلی تھی کہ بڑے میاں کے خاص آدمی اتحاد فائونڈری سمیت وزارت خزانہ کا وسیع تر تجربہ رکھنے والے ڈار صاحب نہ صرف ملک کو معاشی بحران سے نکالیں گے بلکہ عوام کے دکھوں کا بھی مداوا کرنے میں مددگار ثابت ہوںگے مگر یہ سب کچھ عوام کا خواب ہی ثابت ہوا۔
170 ارب کے نئے ٹیکسوں سے آنے والی مہنگائی نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔ ان ظالم حکمرانوں نے مسلمانوں کی اہم سنت نکاح پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ جس پر قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے احتجاج بھی نوٹ کرایا۔ موجودہ وزیر خزانہ نے تو پہلے ہی سے بدتر کام مزید خراب کردیا۔ ڈالر اور ڈار صاحب کی لڑائی میں بیچارے عوام رل گئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستان جب بنا تھا تو ایک ڈالر ایک روپے کا تھا اور اب 262 سے آگے ہے اگر ان شہزادوں کا یہی حال رہا تو چند مہینوں میں 300 تک جا سکتا ہے اور پھر اسی حساب سے مہنگائی بھی دوڑے گی۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کرپشن اور مہنگائی کے خاتمے سمیت کفایت شعاری کی دعویدار پی ڈی ایم حکومت نے ملکی تاریخ میں مہنگائی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ ایک طرف کہتے ہیں کہ زہر کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو دوسری طرف چند ماہ اور غریب و مفلوک الحال ملک کی 85 رکنی کابینہ معیشت پر بوجھ بلکہ قوم کے ساتھ کھلا مذاق نہیں ہے؟ دنیا کے بڑے اور ترقی یافتہ ممالک کی کابینہ ملاحظہ فرمائیں برطانیہ 28، چین 26، امریکا 24، جرمنی 17، فرانس 19 اور روس کی 32 رکنی کابینہ ہے۔
موجودہ وزیراعظم نے یہ بیان دیا تھا کہ مجھے اپنے کپڑے بیچنے پڑے تو وہ بیچ کر بھی آٹا سستا کروں گا مگر انہی کے دور میں زندگی کی بنیادی ضرورت 140 سے 160 روپے فی کلو آٹا بازار میں بیچا جارہا ہے۔ اس سے قبل سابق وزیر اعظم نے کہا تھا کہ خودکشی کروں گا مگر آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لوں گا مگر یہ سب ہوائی باتیں ثابت ہوئی۔ منی بجٹ و مہنگائی سے عام غریب آدمی سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے، روز مرہ کی اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ریلوے، رکشہ، ٹیکسی سمیت ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بے تحاشا اضافہ ہوجاتا ہے جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر نہ صرف پٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں اضافہ بلکہ ائرپورٹ، موٹروے سمیت اہم اداروں اور آزادی کو بھی ان کے پاس گروی رکھا گیا ہے۔ خدا نہ خواستہ اگر وہ کہیں کہ ایٹمی اثاثے ہمارے حوالے کرو غریب بھکاری ملک کو اس کی کیا ضرورت؟ سوچیں پھر کیا ہوگا۔ امریکا کی سرپرستی میں قائم اور اس کی ڈکٹیشن پر چلنے والا ادارہ آئی ایم ایف کا کردار بظاہر ایک ظالم جاگیردار وڈیرے کا نظر آتا ہے جو غریب ہاری کو قرض ہمدردی و رحمدلی میں نہیں دیتا بلکہ وہ اس لالچ میں ان کو قرض دیتا ہے تاکہ وہ نسل در نسل ان کا غلام بن کر رہے اور وہ مقررہ وقت تک قرض ادا نہ کرسکے تو ان کے بال بچوں اور وسائل پر قابض ہو اس ادارے سے کسی خیر کی امید عبس ہے یہ دنیا کی تاریخ ہے جن جن ممالک نے اس مالیاتی ادارے سے قرضے لیے وہ سنبھلنے کے بجائے مزید تباہی کی دلدل میں دھنستے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عوام کا خون چوسنے اور ان پر مہنگائی کے بم گرانے کے لیے حکومت کو مجبور کرنے والا ادارہ آئی ایم ایف حکومت کو اپنی عیاشیاں بند، کفیات شعاری اور مختصر کابینہ بنانے کا پابند کیوں نہیں کرتا؟ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارہ اصلاح نہیں بلکہ ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے رکھنا چاہتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے طاقتور بنانے کے بجائے اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔
ڈار صاحب کی آمد کے باوجود ڈالر کی مسلسل اونچی اڑان سے نہ صرف چیزیں مہنگی بلکہ قرض میں بھی ناقابل برداشت اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان 62 ارب کا مقروض ہے۔ مہنگائی کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے درست نشاندہی کی ہے کہ بار بار عوام پر مہنگائی کے بم گرا کر ان کا خون چوسنے کے بجائے جن جن پارٹیوں کے ادوار میں قرضے لیے گئے ہیں ان کے ذاتی محلات و املاک کو بیچ کر قرض چکایا جائے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ قرض لیکر عیاشیاں حکومتی ٹولہ کرے اور اس کا بوجھ غریب عوام اٹھائے۔ اس وقت بھی ہر پاکستانی سوالاکھ روپے زاید کا مقروض ہے۔ عام پاکستانی 42 اقسام کے ٹیکس دیتے ہیں جبکہ حکمران 100 اقسام کی مراعات لے رہے ہیں۔ 18 بااثر افراد چارہزار ارب کے اثاثوں کے مالک ہیں۔ سرمایہ دارا ٹولہ صرف اپنی جائز زکوٰۃ بھی نکالے تو ملک کا قرضہ اتر جائے، حکومت کا ہدف صرف 560 ارب جمع کرنا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے حکمراں ٹولہ عوام کی حالت زار پر رحم، بیرونی اداروں کی ڈکٹیشن کے بجائے ملک وقوم کے مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی بنائے۔ مہنگائی کے طوفان کو روکنے اور ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچانے کے لیے سادگی کفایت شعاری کی پالیسی اپنائی جائے، بڑی گاڑیوں و محلات پر پابندی اور غیر ترقیاتی اخراجات کم کیے جائیں۔ آخر ملکی خسارے کو پورا اور قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ ہر مرتبہ غریب عوام پر کیوں ڈالا جاتا ہے۔ تین ماہ کے بعد پھر عوام پر نئے بجٹ کی صورت میں مہنگائی کا بم گرایا جائے گا۔ قربانی اور کفایت شعاری کا آغاز حکمرانوں کو اپنی ذات سے کرنا ہوگا، ججوں، جرنیلوں، اعلیٰ بیوروکریسی صوبائی اور وفاقی کابینہ کی ضرورت سے زیادہ مراعات کا خاتمہ اشد ضروری ہے کیوںکہ ملک کا خسارہ صرف پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اور نت نئے ٹیکس لگا کر ختم کرنے والے اقدامات عوام کو زندہ زمین میں دفن کردے گا۔ عام آدمی کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکمران ٹولے اور اشرافیہ کو اپنے اخراجات کم کرنا ہوں گے تب ہی ملک بحران سے نکلنے اور قوم کو ریلیف ملنے کی امید پیدا ہوسکتی ہے۔