نوحۂ عدل

571

عدل کے معنی ہیں: ’انصاف‘، یعنی ہر ایک کو اُس کا پورا پورا حق دینا، اس میں کوئی کمی یا کٹوتی نہ کرنا، اسے ہمارے عرف میں ’ڈنڈی مارنا‘ کہتے ہیں۔ اس میں اگر تفریط کی جائے تو یہ ظلم ہے، یعنی کسی کا حق بالکل سلب کرلینایا کسی کو اُس کے حق سے کم دینا، اگر اس صفت میں اِفراط ہو تو اُسے فضل واحسان کہتے ہیں، یعنی دوسرے کو اُس کے حق سے زیادہ دینا اور خود اپنے حق سے کم لینا۔ عدل مصدر ہے، منصِف کو ’عادِل‘ کہتے ہیں، علم المعانی کے اصول کے مطابق اگر کہا جائے: ’زَیْدٌ عَدْلٌ‘، اس میں مصدر مبنی للفاعل ہوتا ہے، یعنی زید عادل ہے اور بعض علماء اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں: ’کوئی اِس اعلیٰ درجے کا منصِف ہو کہ اس کی ذات کو انصاف کے ہم معنی سمجھا جانے لگے‘، اسی معنی میں مبالغے کے طور پراعلیٰ عدالتوں کے مُنصِفین کو انگریزی میں بھی مُنصِف کو جج کے بجائے Justice (عدل) کہا جاتا ہے، در اصل یہ ایک طرح سے ’حُسن ِ ظنّ‘ ہوتا ہے کہ اس منصب پر فائز ہونے کے بعد اُن کی ذات سے عدل کے سوا کسی اور بات کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی۔
ہمارے ہاں مقتدرہ نے حکومت پر براہِ راست قبضہ کرنے کے بجائے پس ِ پردہ رہ کر سیاست میں دخل اندازی کا غیبی فیصلہ کیا، تو2010 سے ایک نیا تجربہ شروع کیا، سیادت وقیادت کا ایک نیا تخیّلاتی (Imaginary) ہیولیٰ تخلیق کرنا شروع کیا، آج کل کے سیاسی استعارے میں اسے ’پروڈکٹ عمران خان‘ کہتے ہیں۔ یہ کھیل بظاہر مستور ہونے کے باوجود فارسی محاورے: ’عَیاں راچہ بیاں‘ کے مطابق بالکل عیاں اور عُریاں تھا۔ بدقسمتی سے اس تخیّلاتی سیادت وقیادت کی تشکیل میں عدلیہ کو بے دردی سے استعمال کیا گیا اور اس نے بخوشی اس ’کارِ خیر‘ کے لیے اپنی خدمات فراہم کیں۔ طاقتور ادارے کے اردگرد طاقت کا حصار ہوتا ہے اور عدلیہ نے اپنے آپ کو ’توہین ِ عدالت‘ کے مضبوط قلعے میں محصور کردیا، اُن کے معیار کے مطابق جس نے حدِّادب سے تجاوز کیا، اُسے نشانِ عبرت بنادیا گیا۔ ایک ہی جیسے جرم میں ایک صادق وامین اور دوسرا کاذب وخائن قرار پایا، شیخ سعدی نے کہا ہے: (ترجمہ) ’’بادشاہوں کی تلوُّن مزاجی سے بچ کر رہو کہ کسی وقت میں سلام پر بھی ناراض ہوجاتے ہیں اور کبھی دشنام پر بھی خِلعت سے نواز دیتے ہیں‘‘۔
مگر جب سے آڈیو لیکس آنے کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ ہر چوپال، ٹی ہائوس اور گلی کوچے کا موضوع بن گیا، بلکہ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر اتنی بہتات سے ان کی اشاعت شروع ہوئی کہ اب حجابات اٹھ گئے ہیں، انسان یہ سوچ کر دنگ رہ جاتا ہے کہ ایسے ماحول میں ہمارے عالی مرتبت جج صاحبان کے جو مشاہدات اور ریمارکس دوسروں کے بارے میں آتے ہیں، وہ کس حوصلے سے یہ ارشادات فرماتے ہوں گے، عرفِ عام میںاسے ’پھبتی کسنا‘ کہتے ہیں۔
تازہ ترین آڈیو لیکس کی زَد میں آنے والے یا ان سے فیض یاب ہوکر مظلومیت کا لِبادہ اوڑھنے والے اپنے اپنے انداز سے ردِّ عمل دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ ایسے معاملات کی بابت اردو میں ’مُبَیَّنَہ‘ اور انگریزی میں Allegedly کہہ دیا جاتا ہے، لیکن یہ بھی اب محض تکلف بن کر رہ گیا ہے، یہ ایسے حقائق ہیں کہ ان سے انکار کو اردو میں ڈھٹائی، ڈھیٹ پن کہا جاتا ہے، بس ایک غیرمرئی ہالا سمجھ لیجیے۔ اس سے فیض یاب ہوکر مظلومیت کا فائدہ اٹھانے والوں کا مطالبہ ہے: ’ان کا فارنزک آڈٹ کیا جائے، تجزیہ کیاجائے، ان کی اصلیت معلوم کی جائے اور پھر ذمے دار اشخاص کے خلاف کارروائی کی جائے، یعنی ان باتوں کو لیک کرنے کی قانونی بحث میں پڑنے کے بجائے اس کے مشمولات (Contents) پر فیصلہ صادر کیا جائے، اس کے برعکس اس کی زَد میں آنے والوں کا مطالبہ ہے: ’اس امر کی تحقیق کی جائے کہ کس نے ریکارڈ کیے اور کس نے لیک کرائے، انہیں قرارِ واقعی سزا دی جائے، یعنی زَد میں آنے والے ’اصل متن‘ کے حقیقی ہونے کی بابت وہ سوال نہیں اٹھارہے کہ جو افراد یا جج صاحبان مخصوص لوگوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے عدالتوں کے بنچ بنانے پر بھی اثر انداز ہورہے ہیں کہ ’فلاں‘ کا مقدمہ ’فلاں‘ کی عدالت میں لگایا جائے اور اُس ’فلاں‘ سے معاملہ طے کردیا جاتا ہے، تو یہ فریق ِ ثانی اس اصل مسئلے کو موضوعِ بحث ہی نہیں بناتا۔ حالانکہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ بدعنوانی پر آمادہ کرنے والے اور بدعنوان بن کر عدل کو من پسند افراد کے حق میں موڑ دینے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔ اس لیے آج حق اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارا نظامِ عدل ’نوحہ کُناں‘ ہے، لیکن کوئی غوث یعنی فریاد رس دستیاب نہیں ہے، کیونکہ جس سے فریاد کرنی ہے، اُسی پر تو الزام ہے اور اُس کا صراحتًا، اشارتًا یا کنایۃ نام لینا اور نشان دہی بھی جرم ہے، کسی نے کہا تھا: ’جب باڑ ہی کھیت کو کھائے تو رَکْھوالی کون کرے‘۔
مسئلہ یہ ہے: عدالتِ عالیہ وعظمیٰ کے عالی مرتبت جج صاحبان تو ہر ایک کا محاسبہ کرسکتے ہیں، ہر ایک کے لیے حدود وقیود اور دائرۂ کار کا تعین کرسکتے ہیں۔ آئین کے بے جان الفاظ اُن کی منشا کے بغیر ناطق نہیں ہوسکتے، وہ جو چاہیں انہیں معانی پہنادیں، جس کے لیے چاہیں موم کی طرح نرم اور جس کے لیے چاہیں لوہے کی طرح سخت بنادیں، کسی کی مراد بِن مانگے پوری کردیں اور کسی کو برسوں اپنی دہلیز پر حالت ِ انتظار میں بٹھائے رکھیں، پس سوال یہ ہے: ’کیا وہ خود بھی کسی حدود وقیود اور پیشہ ورانہ اخلاقیات کے پابند ہیں‘۔ ان عالی مرتبت جج صاحبان کا تقرر قابلیت، اہلیت، اخلاقیات اور دیانت وامانت کی کن چھلنیوں سے گزار کر کیا جاتا ہے، کسی کو خبر نہیں ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر وہاں کے جج صاحبان کے آبزرویشن /ریمارکس دیکھنے اور سننے کو نہیں ملتے، یہ صرف پاکستان کا ’امتیاز وافتخار‘ ہے، جبکہ حقیت یہ ہے: ’ورلڈ جسٹس پروجیکٹ‘ کی سال 2021 کی رپورٹ میں پاکستانی عدالتی نظام کو قانون کی حکمرانی کی پابندی کرنے میں سب سے نچلے درجے کے 139 ممالک میں 130 ویں نمبر پر رکھا گیا ہے، فَیَا اَسَفٰی وَیَا لَلْعَجَب!
رسول اللہؐ نے فرمایا تھا: ’’قاضی تین قسم کے ہیں: ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جائیں گے، جو حق کو جانتا ہے اور حق پر مبنی فیصلے بھی کرتا ہے، تو وہ جنت میں جائے گا اور جو حق کو جانتے ہوئے ناحق فیصلہ کرتا ہے، وہ جہنم میں جائے گا اور جو جہل پر مبنی فیصلہ کرے گا، وہ بھی جہنم میں جائے گا‘‘۔ (ابوداوٗد) عادلِ برحق اللہ تعالیٰ کی طرف سے مُوَفَّق یعنی توفیق یافتہ ہوتا ہے، اُسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رہنمائی ملتی ہے، کیونکہ اُس کی نیت صالح ہوتی ہے، اس لیے اس پر حق آشکار ہوجاتا ہے، چنانچہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’قاضی کو اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے، پس جب وہ ظلم کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کی توفیق سے محروم ہوجاتا ہے اور شیطان اُس کو چپک جاتا ہے‘‘۔ (ترمذی)
’’رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے قضا طلب کی اور اُس پر دوسروں سے مدد چاہی تو اُسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا اور جو قضا طلب کرے اور نہ اُس پر دوسروں سے مدد مانگے (اور بن مانگے اُسے منصبِ قضا مل جائے) تو اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ نازل فرماتا ہے جو اُسے سیدھی راہ پر رکھتا ہے‘‘۔ (ابودائود)
آج کل منصب ِ قضا کے حصول کے لیے لابنگ کی جاتی ہے، اثر رسوخ کو استعمال کیا جاتا ہے، وسیلہ تلاش کیا جاتا ہے، وکلا کے مخصوص چیمبر سے وابستگی اختیار کی جاتی ہے، اس سے پہلے عدالتِ عالیہ سے عدالتِ عُظمیٰ میں جانے کے لیے خود ہی سپریم جوڈیشل کونسل نے سینیارٹی کا اصول مقرر کر رکھا تھا، مگر جب سے غیبی مطالبات اس کے برعکس آنے لگے یا ذاتی خواہشات وترجیحات غالب آنے لگیں، تو اس اصول کو معطل کردیا گیا۔ حالانکہ بار کونسلیں اس پر احتجاج کرتی رہیں، لیکن ذرّہ بھر اثر نہیں ہوا اور سینئر جج صاحبان کو نظرانداز کر کے جونیرز کو عدالت عظمیٰ میں لایا گیا، پس ظاہر ہے انہیں بھی ’آقا ئے ولی ِ نعمت‘ کے اشارۂ ابرو کو سامنے رکھنا ہوتا ہوگا۔ شریعت کے ضابطے تو اس قدر کڑے ہیں کہ ہدایت ہے: قاضی کو مغلوب الغضب ہوکر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، حدیث پاک میں ہے: ’’سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول کریمؐ کو فرماتے ہوئے سنا: کوئی شخص غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ کرے‘‘۔ (مسلم)
کبھی حاکم یا قاضی کی ذاتی نفرت یا عداوت عدل کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے، اس پر متنبہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے (حق پر) مضبوطی سے قائم رہنے والے ہوجائو دراں حالیکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہو اور کسی قوم کی عداوت تمہیں ناانصافی پر نہ ابھارے، (ہرصورت میں) عدل کرو، یہ (شِعارِ عدل) تقوے کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تمہارے کاموں کی خوب خبر رکھنے والا ہے‘‘۔ (المائدہ: 8) چونکہ عدالت میں کسی کے حق کا ثبوت شہادت پر موقوف ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں شہادت کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے ایمان والو! عدل پر مضبوطی سے قائم رہنے والے اور اللہ کے لیے گواہی دینے والے بن جائو، خواہ یہ گواہی تمہاری ذات یا تمہارے ماں باپ اور رشتے داروں کے خلاف ہو، (فریق ِ معاملہ) خواہ امیر ہو یا غریب، اللہ تم سے زیادہ اُن کا خیرخواہ ہے، پس تم خواہش کی پیروی کر کے عدل سے روگردانی نہ کرو اور اگر تم نے گواہی میں ہیر پھیر کیا یا پہلو تہی اختیار کی تو اللہ تمہارے سب کاموں سے خوب باخبر ہے‘‘۔ (النسآء: 135)
عدل کی فراہمی جن کے کندھوں پر ہے، انہیں مختلف ادوار میں خلیفہ، امیر، امام، حاکم اور قاضی سے تعبیر کیا گیا ہے، الغرض نظامِ عدل کے لیے شریعت میں واضح احکامات ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت اُس کے حق داروں تک پہنچادو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو انصاف پر مبنی فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں کتنی عمدہ نصیحت فرماتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے‘‘۔ (النسآء: 58)
اگرچہ دو افراد کے درمیان گفتگو پرائیویٹ ہوتی ہے، اُس کی ٹوہ لگانا شرعاً درست نہیں ہے، لیکن جب نظامِ عدل اتنے تنزّل کا شکار ہوچکا ہوکہ اُسے بندوبست میں لایا جاسکتا ہو اور یہ سب کچھ وقوع پزیر بھی ہورہا ہو تو پھر اِس سے نجات کی بھی کوئی تدبیر ماہرین بتائیں، جسے قانونی ضابطے میں لایا جاسکتا ہو، ورنہ انصاف کا ادارہ صرف باوسیلہ اور بارسوخ افراد کے مفادات کا محافظ بن کر رہ جائے گا۔