جب ایسے ہونے سے مرجانا بہتر ہو

631

اتوار کو خبر آئی کہ پرویز مشرف مرچکا ہے ۔پرویز مشرف کی طرح ہونے سے مرجانا ہزار درجے بہترہے ۔ جس نے نواب اکبر بگٹی کو کہا تھا ’’آپ کو ایسی جگہ سے ہٹ کیا جائے گاکہ آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گااور آپ اس جہان سے رخصت ہو جائیں گے ‘‘آج کفن سے باہر ہاتھ نہیں نکال سکتا۔ قبر سے باہررسائی نہیں پاسکتا۔ اسے معلوم تھا کہ وہ اس جہان سے اس طرح رخصت ہو گا کہ شدید بیماری نے اس کے پورے جسم کو دبوچا ہوا ہو گا۔ سسک سسک کر بولنے سے بھی وہ قاصر ہو گا۔ تنہائی اور سناٹا کفن کی طرح اس کے گرد لپٹا ہوگا اور جا معہ حفصہ کی معصوم بچیوں کی روحیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ہاں انصاف کی طلب میں اس کی منتظر ہوں گی۔ ان کمزور اور بے سہارا بچیوں سے ایسی زہریلی نفرت، بموں کی ایسی بمباری کہ پِتّابھی پانی ہوجائے لیکن تازندگی پرویزمشرف کبھی اس المیے سے خائف نظر نہیں آیا۔ 12 مئی 2007 کو وکلا تحریک کے دوران چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی آمد پر کراچی مقتل بن گیا، پچاس سے زائد لوگ گو لیوں سے چھلنی ہو گئے، کھلے عام خون کی ہولی کھیلی گئی، درجنوں زخمی ہو گئے لیکن وہ بزعم خود بے فنا آدمی طاقت سے مکے لہراتا رہا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کس جنون اور بے دردی سے قتل کر دی گئیں، پورا ملک سُن ہوکررہ گیا۔ کئی دن تک آگ اور خون کی حدت میں ڈوب گیا لیکن پرویز مشرف اس قتل پر بھی پشیمان اور شرمندہ نہیں ہوا۔ ہزاروں برس پر پھیلی انسانی تاریخ کا جائزہ لیںتو پرویز مشرف جیسے کردار کسی بھی ملک وقوم کے لیے بد نصیبی سے کم نہیں ہوتے۔ وہ طاقت کا منفی مظہر تھے۔ بلو چستان بڑی حدتک پرامن ہو چکا تھا۔ اکبر بگٹی کے قتل سے پرویز مشرف نے وہاں ایسی آگ لگادی جو آج تک بھڑک رہی ہے اور کسی طور ٹھنڈی ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ لال مسجد کامعاملہ جذبات کی شدت میں سیاسی اظہاریے، حسن تد بیر اور خلوص ومحبت کے تھوڑے سے ملاپ سے حل کیا جا سکتا تھا پرویز مشرف نے افواج پا کستان کو پا کستانی شہریوں کے مقابل لا کر کھڑا کردیا۔ پرویز مشرف نے جا معہ حفصہ کی بچیوں پر بجلی، پانی اورگیس بند کیا تب سے پورا ملک بجلی، پانی اور گیس کی سپلائی کے تعطل کا شکار ہے۔ لال مسجد پر بم مارے گئے تب سے آج تک پا کستان دھماکوں سے گونج رہا ہے۔ الطاف حسین کو پرویز مشرف غدار کہا کرتے تھے اقتدار میں آئے تو پورا کراچی اس کے اس طرح سپرد کردیا کہ بارہ مئی کی خون کی ہولی کو عوامی طاقت کا اظہار قراردے دیا۔ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف محض دو صوبوں کے نمائندہ نہیں پورے ملک کی یکجائی کی علامت تھے۔ ان دونوں سے نجات کی راہ پرویز مشرف نے اس ملک کو اس طرح دکھائی کہ یہ سوچ بڑھتے بڑھتے عمران خان جیسے عفریت کی شکل میں ڈھل گئی۔ فوج کو بھی سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے کیسے نجات حاصل کی جائے؟ وہ ایک ایسے کمزور سپہ سالار اور حکمران تھے جوتکبر سے پھولے رہتے تھے ۔
دہشت گردی کے خلاف امریکاکی جنگ میںپاکستان کی شرکت کا فیصلہ پرویز مشرف نے ایک ڈان کی طرح کیا۔ نہ مشاورت نہ کوئی حکمت عملی اور نہ ان امکانات سے بحث کہ کہاں تک اور کس حد تک امریکا کا ساتھ دیا جاسکتا ہے ۔اس موقع پرتاریخ بناناتوایک طرف تاریخ کے جبر کو بھی وہ برداشت نہ کرسکے اور ایک ٹیلی فون کال پر اس طرح امریکا کے آگے لیٹ گئے۔ خودامریکی بھی جس پر حیران تھے۔ جس طرح پورا پاکستان انہوں نے امریکا کی جھولی میں ڈالاوہ ایک ایسے مستقبل کی تمہید بن گیا جس میں بجز تباہی بربادی اور دردربھیک مانگنے کے کم کے سوا کوئی امکان باقی نہیں رہا۔ خطے میں امریکی افواج کے داخلے کو انہوں نے امریکا کااستحقاق بنادیا۔ قومی ریاستوں کے تصور پر یقین رکھنے والے پرویز مشرف سے اُمید نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ مسلمانوں کی اسٹرٹیجک ڈیپتھ کے تناظر اور ناقابل پیمائش وسعت کو مدنظر رکھتے۔ تاہم پاکستان کی ائر اسپیس، پانچوں ہوائی اڈوں اور زمینی راستوںکو جس طرح انہوں نے نیٹو سپلائی لائن بنادیا۔ اس کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ جہاں سے امریکی فوجی طیارے اور سازوساما ن گزر کر افغان مسلمانوں پر آگ برساتے اور خون کے تالاب بناتے تھے۔ افغان مسلمان بھائیوں پر اس ظلم کا جواز انہوں نے ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘کا نعرہ لگاکردیا تھا کہ امریکی آگ کو وہ پا کستان کے گلی کوچوں میں پھیلنے نہیں دیں گے لیکن یہ آگ پا کستان کے گلی کوچوں میں ایسی پھیلی کہ بیس برس گزرنے کے باوجود بجھنے کا نام نہیں لے رہی ۔
امریکا کا سب سے بڑااتحادی ہونا پرویز مشرف کے لیے ایسا اعزاز تھا کہ وہ خود کو شہنشاہ محسوس کرتے تھے۔ انہوں نے عملاً پاکستانی فوج کو سی آئی اے اور امریکی اہلکاروں کے سپرد کر دیا۔ بڑے نچلے رینکس تک امریکیوں کو پاکستانی فوج میں روابط قائم کرنے کا موقع ملا۔ امریکی فوجی اہداف کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی ہی فوج کو کبھی پختون اور کبھی بلوچ قبائل پربے دریغ استعمال کیا۔ انہوں نے امریکی ڈرون حملوں کی کھلی اجازت دے رکھی تھی کہ وہ پاکستان کی فضائوں سے جب اور جتنے مسلمانوں کو چاہیں شہید اور زخمی کریں۔ انہوں نے پا کستان میں ریمنڈ ڈیوس نیٹ ورک کو مضبوطی سے کام کرنے کے پورے پورے مواقعے دیے جس نے ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں سے پورا ملک ہلاکررکھ دیا۔
گزشتہ 75برس سے پاکستان کی فوجی تیاریوں کا ہدف بھارت کے ساتھ جنگی توازن برقرار رکھنا رہا۔ پرویز مشرف کے دور میں پہلی مرتبہ بھارت کے ساتھ فوجی توازن برابر رکھنے کے تصور کو ترک کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم کمزوری کے اس حال میں ہیں کہ بھارت کے ساتھ جنگ کرنے کے خیال کو بھی پاگل پن سمجھا جاتا ہے۔ کشمیر میں جہاد کو ہم نے ہمیشہ زندہ رکھاخاص طور پر جنرل ضیا الحق کے دور میں۔ پرویز مشرف نے لائن آف کنٹرول پر باڑ لگا کر اور پا کستان سے مقبوضہ کشمیر جا کر مجا ہدین کی مدد کرنے والوں پر پابندی لگا کر اہل کشمیر کو اس طرح بھارتی درندوں کے سپرد کیا کہ مودی نے باآسانی کشمیر کو ہندوستان میں ضم کر لیا۔ نہ صرف ضم کرلیا بلکہ بڑی جارحانہ منصوبہ بندی کے ساتھ اب وہاں آبادی کا گراف تبدیل کررہا ہے۔ دس بیس برس گزریں گے کشمیر میں ہندواکثریت اور مسلمان اقلیت میں ہوں گے۔ خطے میں چین کے مقابل بھارت کی بالا دستی کے امریکی عزم کو پا کستان پورا کررہا ہے۔
اب جب کہ پرویز مشرف زندہ اور بااختیارانسان نہیں ایک لاش ہیں۔ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عدالت میں پہنچ چکے ہیں جہاں کوئی ان کا وکیل ہوگا اور نہ مددگار۔ جہاں جج چھٹی پر جاتے ہیں اور نہ تاریخ پر تاریخ دے کر کیس ملتوی کرتے ہیں۔ جہاں انسانی اور قانونی مصلحتیں ہیں نہ نظریہ ضرورت اور نہ این آراو۔ یہ وہ عدالت ہے جہاں نہ جھوٹی گواہیاں چلتی ہیں، نہ دھوکا دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی متاثرین پردبائو ڈال کر صلح صفائی کی جاسکتی ہے، لال مسجد کے شہدا باجوڑ مدرسے کے طلبا، ڈاکٹر عافیہ اور ان تمام لوگوں کوانصاف ملے گا دنیا کی عدالتیں جن کی دادرسی کرنے سے قاصر تھیں۔ نمرود، فرعون، ابو جہل اور ابو لہب کاذکر اللہ کی آخری کتاب میں اس لیے کیا گیا ہے کہ لوگ ظالموں کے انجام سے عبرت حاصل کرسکیں لیکن افسوس کم ہی لوگ ایسا کرتے ہیں۔