حق دو کراچی کو

520

بجلی کی لوڈشیڈنگ اووربلنگ کے بعد سردیاں اس شہر کراچی پر زحمت بن کر نازل ہوئی ہیں ایک تو ویسے ہی کڑاکے دار سردی پڑ رہی ہے اوپر سے آئے روز گیس کا مسئلہ۔ اب صاحب خانہ لکڑی کا چولھا لے آئے۔ برتن تو ویسے ہی بہت کالے ہوگئے ہیں۔ رگڑ رگڑ کر ہاتھ الگ زخمی ہوگئے ہیں۔ سوچ رہی ہوں کہ کبھی آج تک لکڑی کا چولھا استعمال نہیں کیا۔ دنیا روز بروز ترقی کررہی ہے۔ نت نئی ایجادات ہورہی ہیں۔ اور ہمارے شہر کو نا جانے کس کی بددعا کھاگئی۔ ترقی یافتہ شہر دن بدن پس ماندہ ہوتا جارہا ہے۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر غریبوں کی ماں کا لقب پاتا تھا… یہاں کی گلیاں، چوبارے اور چوراہے غریبوں کے لیے ہر وقت کھلے رہتے تھے… اس کی معیشت پر ملکی معیشت کا انحصار ہوا کرتا تھا.. مملکت خداداد کا میٹرو پولیٹن شہر کا اعزاز ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف قومیتوں قبیلوں ذات اور برادری اور ملک بھر سے لوگ یہاں روزگار اور تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ یہاں کی رونقوں کو دشمن کی نظر لگ گئی … غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتنائی نے آہستہ آہستہ اس شہر کا امن ختم کردیا وہی کراچی جو ملکی سیاست، معیشت، معاشرت، صنعت وثقافت میں اپنا ثانی نا رکھتا تھا اپنوں کی رقابتوں انتقام اور سازشوں کی نظر ہوگیا… قتل و غارت گری، چوری، دن دہاڑے قتل، بھتا، ٹارگٹ کلنگ، عصمت فروشی، ڈکیتی، لوٹ مار، فتنہ و فساد اور لسانی جھگڑے یہاں روز کا معمول بن گئی … عصبیت کی بھڑکائی ہوئی آگ اس قدر بڑھی کے کراچی سال کے بارہ مہینے اس آگ میں سلگتا جارہا ہے۔ کبھی بھائی لوگوں کے بھتے پورے نہ ہونے پر مزدوروں سے بھری فیکٹری نذر آتش کردی جاتی ہے تو کبھی ٹیکسوں کی بہتات اور کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی سے شہر اندھیاروں میں گھرا نظر آتاہے۔ کبھی دن دہاڑے موبائل چھننے کے نام پر شہر کے معصوم نوجوانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے تو کہیں گیس کی لوڈشیڈنگ جاری ہے۔ کہیں گٹر ابل رہے ہیں تو کہیں کچرا آسیب بن کر بیماریاں پھیلا رہا ہے۔
پہلے ہم کراچی کے باسی صرف کچھ اچھے وقت کے لیے ہی باربی کیو کے لیے کوئلے اور لکڑی کے چولھوں پرکچھ چکن اور گوشت بھون لیتے تھے لیکن اب یہی مستقل ہمارا مقدر بنا دیے گئے ہیں۔ وہ پرویز مشرف جو پتھروں کے دور میں جانے سے ڈراتا تھا، آئے دیکھے اس کے لگائے ہوئے بیج آج تناور درخت بن کر کھڑے ہیں۔ یہاں آدمی اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے۔ جس ملک کو تم نے آگ میں جھونکا وہ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ پتھروں میں رہنے والے دوسری سپر پاور کو شکست دے کر ترقی کی دوڑ میں اقوام عالم کا مقابلہ کرنے کو تیار کھڑے ہیں اور ہم اپنا جائز حق بھی اپنا خون بہا کر لے رہے ہیں۔ ایک شخص جو صاف کردار، امانتدار، اسلامی تعلیمات سے مزین اور حافظ قرآن ہے۔ اسے مئیر بننے سے روکنے کے لیے دنیا بھر کی دو نمبریاں، چال بازیاں، مکاریاں، خون ریزیاں، اور فسادات کررہے ہو۔ کیا کراچی کے عوام کو بحرعرب میں ڈبونا چاہتے ہو۔ آخر چاہتے کیا ہو تم لوگ…؟ کراچی جیسا روشنیوں کا شہر تاریکی کے کھنڈر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خدارا شہر کو اس کا جائز حق دے دو۔ اس شہر کے عوام پر رحم کرو۔ ہمیں پتھروں کے دور میں مت دھکیلو۔ پوارا پاکستان کراچی کے غموں پر رو رہا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لو۔ اللہ سے ڈرو، جب اللہ پکڑتا ہے تو پھر کوئی بھی نہیں اس کی پکڑ سے بچا نہیں سکتا۔