کراچی اور سال 2023

650

نئے سال کی آمد آمد ہے۔ شاید اس مضمون کی اشاعت کے وقت سال 2023 شروع بھی ہوچکا ہو کہ محض دو دن بعد 2022 ماضی کا قصہ بن جائے گا اور دنیا بھر کے لوگ نئی امیدوں اور نئے جذبوں کے ساتھ سال نو کو خوش آمدید کہیں گے۔ وقت تو گزرنے والی چیز ہے اور گزر ہی جاتا ہے بس پیچھے کچھ اچھی اور کچھ تکلیف دہ یادیں رہ جاتی ہیں۔ سیاسی صورتحال کے لحاظ سے 2022 پاکستان کے لیے ایک ہنگامہ خیز سال رہا کہ اس سال تقریباً ساڑھے تین سال حکومت کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی حمایت سے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ یہ سب کیسے ہوا یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں چنانچہ ہم بات کریں گے کراچی کی۔
جائزہ لیا جائے تو 2022 کراچی والوں کے لیے اس لحاظ سے مایوس کن رہا کہ ایم کیو ایم کے قائد کی تحریر و تقریر پر پابندی اور غیر فعالیت اور ایم کیو ایم کے تتر بتّر ہونے اور مختلف دھڑوں میں بٹنے کے بعد کراچی والوں نے تحریک انصاف کو اپنی نمائندگی سونپی لیکن پی ٹی آئی کے کراچی سے منتخب ہونے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اپنے پورے دور میں کراچی کو بری طرح نظر انداز کیے رکھا اور کسی فورم پر کراچی کے مسائل کے حل کے لیے کوئی پیش رفت نہ دکھائی اور عمران خان کراچی کے لیے کبھی ڈھائی سو اور کبھی گیارہ سو ارب کے جھوٹے پیکیج کے اعلان سے آگے نہ بڑھے۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی ہے جو لگ بھگ تیس سال سے سندھ پر حکومت کرتی آئی ہے لیکن اس نے بھی کراچی کو کمائی کا دھندہ تو بنایا ہوا ہے لیکن یہاں کے عوام کو ان کا جائز حق دینے کو تیار نہیں۔
کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو سب سے زیادہ ریوینیو کماتا ہے لیکن یہاں کے شہری بنیادی سہولتوں سے محرومی کی صورت میں اذیت ناک زندگی گزار رہے ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں نے لوگوں کی اکثریت کو دائمی کمر درد کا مریض بنادیا ہے۔ بارش میں کتنے ہی معصوم کھلے نالوں میں ڈوب کر اور کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں۔ گزرگاہوں پر کچرے کے ڈھیر بیماریاں بانٹتے ہیں۔ نوجوان کھیل کے میدانوں اور اچھی تعلیم کے مواقع سے محروم ہیں۔ دن بھر محنت مشقت کرنے والا گھر پہنچ کر بھی سکون نہیں پاتا کیوں کہ لائٹ نہیں ہوتی۔ پینے کا پانی بھر کر لانا ہوتا ہے یا پھر گیس کی عدم فراہمی کے باعث لمبی لائن میں لگ کر روٹی اور کھانے کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ سڑکوں پر ڈاکوؤں کے ہاتھوں جان اور مال جانے کا خطرہ رہتا ہے۔ پولیس والوں کے ذلت آمیز روئیے کو برداشت کرتا ہے۔
یہ سب عوامل لوگوں کو ایک طرح کی ذہنی غلامی کا شکار کررہے ہیں وہ اس طرح کہ اگر پانی نہیں آتا تو ٹینکر ڈلوالو، بجلی نہیں تو جنریٹر، یو پی ایس یا سولر سسٹم پر منتقل ہوجاؤ۔ گیس کے لیے سلنڈر لے آؤ۔ سرکاری تعلیمی ادارے تعلیم نہیں دیتے تو پرائیوٹ اسکول میں چلے جاؤ۔ معاش کے چکر میں ایسا جکڑ دیا گیا ہے کہ لوگ اپنے حقوق کا سوال اٹھانا بھول جائیں۔ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ جگہ جگہ چھوٹی سی بات پر جھگڑے معمول بنتے جارہے ہیں۔
جسارت کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ اس وقت کراچی کے کمشنر اور ساتوں اضلاع کے ڈپٹی کمشنر غیر مقامی ڈومیسائل کے حامل ہیں۔ کراچی کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ ایک غیر مقامی ناصر عباس سومرو کو لگایا گیا ہے۔ لیاری اور ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹیز کے سربراہ بھی اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے افسران ہیں۔ شہر کے بڑے اسپتالوں سمیت سندھ گورنمنٹ اسپتالوں کے ایم ایس بھی غیر مقامی ڈومیسائل والے ہیں۔ 106 میں سے 105 تھانوں کے ایس ایچ اوز اندرون سندھ سے لاکر تعینات کیے گئے ہیں۔ شعبہ تعلیم کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ ڈائیریکٹوریٹ کالجز میں مقامی افسر ڈھونڈے نہیں ملتا۔ 132 کالجز کے پرنسپل اندرون سندھ سے لائے گئے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ کراچی میں ڈاکو اکثر غیر مقامی ، بھکاری غیرمقامی، قبضہ گیر اور جرائم پیشہ افراد کی اکثریت بھی غیر مقامی نظر آئے گی۔ گویا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کراچی کا انتظام اور امن و امان غیر مقامی لوگوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ یہ صورتحال انتہائی خطرناک مستقبل کا نقشہ کھینچ رہی ہے۔ خدانخواستہ ایسا نہ ہو کہ پھر سے کوئی الطاف پارٹ ٹو لوگوں کی محرومیوں سے فائدہ اٹھاکر شہر کو دوبارہ آگ اور خون میں دھکیل دے۔
اس صورتحال کا مطلب یہ ہوا کہ الطاف نامی عفریت کے چنگل سے نکال کر کراچی کو بتدریج غیر مقامیوں کے نرغے میں دیا جارہا لیکن اس کے نتیجے میں شہرکے لوگوں میں یہ احساس بیدار ہورہا ہے کہ انہیں دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ اور یہ وہ بم ہے، جب پھٹا تو خدانخواستہ خوفناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ غیر جمہوری بلکہ آمرانہ طرز عمل اس جماعت کا ہے جو خود کو جمہوریت کا چمپئن سمجھتی ہے۔ یہ پیپلز پارٹی ہے جس نے ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کراچی کو پنگ پانگ کی گیند بنایا ہوا ہے اور مل بانٹ کر کراچی کے وسائل سے اپنی اپنی تجوریاں بھری جارہی ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی نے شہر کے مسائل پر آواز اٹھائی ہے اور ’’حق دو کراچی کو‘‘ کے عنوان سے اتنی مؤثر مہم پچھلے تین سال سے تسلسل سے جاری ہے کہ اس کے تحت کراچی کے چھوٹے بڑے، ہر مسئلہ کو ہائی لائٹ کیا گیا ہے۔ بجلی، پانی، گیس قبضہ مافیا، بحریہ ٹاؤن، نادرا، اسٹریٹ کرائم، کھیل کے میدان، ٹرانسپورٹ، سڑکیں غرض ہر معاملے پر اہل کراچی کا مقدمہ شاہراہوں سے لیکر عدالتوں تک لڑا ہے۔ اس مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں کراچی کے شہری اپنے مسائل کے حوالے سے جماعت اسلامی کو نجات دہندہ سمجھتے ہیں اور کئی سروے کے نتائج بتارہے ہیں کہ شہر کراچی کے باشندے حافظ نعیم الرحمن کو شہر کا میئر دیکھنا چاہتے ہیں۔
2019 میں بلدیاتی مدت کے اختتام کے بعد آئینی طور پر 90 روز کے اندر نئے بلدیاتی الیکشن ہوجانا چاہیے تھے لیکن آخری بلدیاتی دور میں ایم کیو ایم کے میئر وسیم اختر اور ان کی ٹیم کی بدترین کارکردگی اور شہر کو مسائلستان بنادینے اور اپنی نااہلی کو اختیارات نہ ملنے کا جھوٹا رونا رونے کے پیچھے چھپانے کی ناکام کوششوں اور پیپلز پارٹی کی ہمنوائی میں بلدیاتی الیکشن سے مسلسل فرار کی کوشش نے عوام کی نمائندگی کی دعویدار دونوں جماعتوں کو بے نقاب کردیا ہے۔ جماعت اسلامی کی عدالتی جدوجہد کے نتیجے میں جب اعلیٰ عدلیہ نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ دیا اور انتخابات کی تاریخ مانگی تو بادل نخواستہ سندھ حکومت نے جولائی کی 24 تاریخ مقرر کردی لیکن طوفانی بارشوں کے باعث الیکشن ملتوی کردیے گئے اور 28 اگست کو بلدیاتی الیکشن کی تاریخ دی گئی۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کی مہمات عروج پر تھیں تو محض 4 دن قبل سیلاب کا بہانہ بناکر الیکشن ملتوی کرادیے گئے حالانکہ سیلاب کراچی میں نہیں آیا تھا لیکن سیلاب متاثرین کی پناہ کے لیے کراچی آمد اور ان کے انتظامات کا عذر لنگ پیش کیا گیا۔ اس التوا کے خلاف جماعت اسلامی عدالت چلی گئی تو عدلیہ کی ہدایت پر مجبوراً 23 اکتوبر کی نئی تاریخ دی گئی لیکن چوں کہ حکومت بلدیاتی انتخابات کرواکر شہری امور منتخب نمائندوں کے حوالے کرکے سونے کی چڑیا سے ہاتھ دھونے کو تیار نہیں چناں چہ اس مرتبہ سندھ پولیس کی سیلاب متاثرین کے لیے امداد میں مصروفیت کا بھونڈہ جواز تراشا گیا جس سے عوام نے اندازہ لگایا کہ شاید سیلاب متاثرین کے گرد نظر نہ آنے والے سندھ پولیس کے جوان طلسمی چادر اوڑھے سیلاب متاثرین کو اپنے ہاتھوں سے نوالے بناکر کھلا رہے ہیں۔
بہرحال صوبائی الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے اس مرتبہ بھی الیکشن ملتوی کرانے میں سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کو کامیابی ملی۔ اس جھوٹے بہانہ کے بعد ہم نے دیکھا کہ یہی پولیس نفری عمران خان کے اسلام آباد مارچ کے موقع ڈیوٹی دیتی نظر آئی جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ جھوٹ بول کر الیکشن سے راہ فرار اختیار کی گئی۔ لیکن بھلا ہو جماعت اسلامی کا جس نے شہریوں کے حق کے لیے بھرپور آواز اٹھائی اور الیکشن کمیشن پاکستان اور عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اب یہ الیکشن سال 2023 کے جنوری کی 15 تاریخ کو کروائے جائیں گے۔ یہ بار بار کا فرار الٹا انہی دونوں جماعتوں کے گلے پڑگیا ہے اورکراچی کے شہریوں میں یہ سوچ مضبوط ہوئی ہے کہ پارٹی تفریق سے بالاتر ہوکر اپنے شہر اور محلے کی بہتری کے لیے حافظ نعیم کو کراچی کا میئر بنانا ہے۔ الیکشن کمیشن پاکستان کے فیصلہ کے بعد امید ہوچلی ہے کہ سال 2023 کے آغاز میں ہی 15 جنوری کا دن کراچی کی تقدیر بدلنے کی شروعات ثابت ہوگا اور نیا سال واقعی کراچی والوں کے لیے مبارک بن جائے گا لیکن 15 جنوری کے الیکشن کے لیے مہم شروع ہوئے ابھی ہفتہ دس دن ہی ہوئے ہیں کہ یہ اطلاعات آنی شروع ہوگئیں کہ اس بار بھی یہ غاصب لٹیرے اہلیان کراچی کا حق دبانے کے لیے نئی منصوبہ بندی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں اور حلقہ بندی کے حوالے سے ایم کیو ایم کی عدالت عالیہ میں دائر درخواست کو جواز بناکر پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے الیکشن کمیشن کو ایک بار پھر خط لکھ کر الیکشن التوا کی درخواست کی ہے۔
اس سازش پر جماعت اسلامی کا فوری ردعمل سامنے آیا ہے اور حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس میں 8 جنوری کو ایک عظیم الشان اور غیر روایتی جلسہ عام کا اعلان کیا جس میں ’’اعلان کراچی‘‘ کے عنوان سے تاریخی چارٹر پیش کیا جائے گا۔ اور سیاسی، تعلیمی، سماجی اور بلدیاتی ایجنڈے کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی امیر جماعت اسلامی کراچی نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ’’کراچی میں بلدیاتی الیکشن روکنے کے لیے غیر جمہوری و غیر قانونی طرز عمل اور خلاف آئین اقدامات کا نوٹس لیں‘‘۔ اور مطالبہ کیا ہے کہ بلدیاتی انتخابات شیڈول کے مطابق 15 جنوری کو ہی کرائے جائیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار بھی کراچی دشمنوں کی سازش کامیاب ہوگی یا اہل کراچی سرخرو ہوں گے۔