’’تماشا زندگی کا‘‘

364

ایک تماشا زندگی لگاتی ہے جو مکافات عمل کہلاتا ہے، ایک تماشا حضرت انسان لگاتا ہے جس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد ضرور کارفرما ہوتا ہے یا پھر وہ تماشا اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی ہوتا ہے مگر ایک تماشا اقبال ہاشمی نے لگایا اور خوب لگایا۔ یہ تماشا انہوں نے ایک کتاب کو لکھ کر لگایا۔ طنزو مزاح پر مبنی اس کتاب نے مجھے بھی لکھنے پر مجبور کردیا۔ اقبال ہاشمی سے میرا تعارف زیادہ پرانا تو نہیں ہے مگر مختصر سے عرصہ پر مبنی اس تعلق نے مجھے ان کا گرویدہ کردیا ہے۔ ان کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ ان کا تعلق افواج پاکستان سے رہ چکا ہے، اس لیے ایسے لوگوں سے ڈرنا واجب بنتا ہے، وہ استاد (معلم) بھی ہیں اس لیے احترام کرنا فرض بنتا ہے، وہ سیاستدان بھی ہیں اس لیے تنقید بھی جائز بنتی ہے اور وہ انجینئر بھی ہیں اس لیے اخلاقاً ترس کھانا بھی بنتا ہے۔ کافی سیانے ہیں اس لیے انجینئرنگ کے ساتھ ایم بی اے بھی کرلیا اس لیے کئی بڑی کمپنیوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں اور اب باضابطہ مصنف بھی بن گئے ہیں۔ یعنی اگر کوئی ان کی شخصیت پر لکھنا چاہے تو کئی وجوہ موجود ہیں۔
اردو ادب میں نثر میں طنزو مزاح لکھنے والوں کی فہرست زیادہ طویل نہیں ہے۔ شوکت تھانوی، رشید احمد صدیقی، پطرس بخاری، ابن انشاء، قدرت اللہ شہاب، پریم چند، رتن ناتھ سرشار، کرنل محمد خان وہ لوگ ہیں جنہوں نے مزاح لکھ کر شہرت کمائی۔ ہمارے دور کا جائزہ لیں تو مشتاق احمد یوسفی، انور مقصود اور محمد یونس بٹ نمایاں نظر آتے ہیں۔ اتنے بڑے ناموں کے بعد طنزو مزاح کے میدان میں اپنے لیے جگہ بنانا جوئے شیر لانے سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ اقبال ہاشمی کی کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے اسی طرح معیاری تحریریں لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا تو امید ہے وہ جلد ہی اردو ادب میں اپنا مقام بنا لیں گے۔
اقبال ہاشمی نے اپنی پہلی کتاب کا نام تماشا رکھا ہے۔ جس میں زندگی کے تماشوں کو نہایت خوبصورتی کے ساتھ طنز و مزاح کے پیرہن میں سمو کر پیش کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ میں نے جس طرح زندگی کو دیکھا یا بچپن میں جس طرح بتایا گیا بعینہ اسی طرح تحریرکے ذریعے پیش کردیا ہے۔ ان کی بات بالکل بجا نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے کتاب تو مزاحیہ انداز میں لکھی ہے مگر کتاب پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ کتاب تو انتہائی سنجیدہ ہے کیونکہ اس کتاب میں کئی مقامات ایسے بھی ہیں جن کو پڑھ کر مصنف کے کرب کا احساس کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں قیام پاکستان کے بعد وقوع ہونے والے کئی سانحات کا ذکر کیے بغیر ان کا احساس دلایا ہے تو کہیں سیاست اور جمہوریت کے نام پر ڈھائی جانے والی تباہی کی بھی نشاندہی کی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ زندگی کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنا نہایت سنجیدہ اور ذمے داریاں نبھانے کا معاملہ ہے۔ شاید اقبال ہاشمی کی طبیعت میں شفتگی کا عنصر زیادہ ہے اس لیے انہوں نے اپنے قلم سے سنجیدہ موضوع بھی مزاحیہ انداز میں بیان کیے ہیں۔ انہوں نے اپنے احساسات کا اظہار پیش لفظ میں اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’جب انسان اداس ہوتا ہے تو شاعری کرتا ہے اور بہت اداس ہوتا ہے تو مزاح لکھتا ہے‘‘۔ مصنف کا تعلق چونکہ ایکس جنریشن سے ہے، 1960 سے 1980 کے درمیان پیدا ہونے والے افراد کو ایکس جنریشن کہا جاتا ہے اور ان دو دہائیوں کے مختصر عرصہ میں دنیا جس تیزی سے بدلی ہے اس کا اندازہ موجودہ نوجوان نسل بالکل نہیں لگا سکتی ہے اس لیے مصنف نے اس کتاب میں ایک طرف اگر بوڑھوں کی دلچسپی کا پورا پورا سامان مہیا کا ہے تو دوسری طرف نوجوان نسل کے لیے بھی اپنے کلچر کے بارے میں جاننے اور اپنی اصلاح کرنے کا پورا پورا بندوبست کیا ہے۔
مزاح لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے کیونکہ مزاح لکھتے لکھتے قلم غیرارادی طور پر بھی لچر پن کی طرف چلا جاتا ہے۔ مصنف نے اس سے بچنے کی بڑی اچھی کوشش کی ہے۔ دوران مطالعہ کہیں کہیں پر کوئی بات طبیعت پر گراں گزرتی ہے مگر جب وہ باب مکمل کرلیا جاتا ہے تو بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ مصنف کیا کہنا چاہتا ہے۔ کہیں کہیں انگریزی کے الفاظ و اصطلاحات کے معنی و تشریح بیان کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوتی ہے۔ کتاب کا سرورق اور ابواب ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کتاب طنزو مزاح پر مبنی مواد سے آراستہ کی گئی ہو گی مگر جب کتاب کا مطالعہ مکمل کرلیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنے قاری کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے مگر انتہائی ہلکے پھلکے انداز میں۔ دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی مشہور زمانہ فلم شکتی کے متعلق جاوید اختر نے کہا تھا کہ فلم میں امیتابھ بچن نے ایک باغی بیٹے کا کردار اس خوبی سے ادا کیا کہ فلم دیکھتے ہوئے کہیں بھی بدتمیز بیٹے کا تصور پیدا نہیں ہوتا ہے۔ بالکل اسی طرح اقبال ہاشمی نے رشتوں بالخصوص بیوی جیسے اہم اور نازک رشتے کا بار بار ذکر کرتے ہوئے بھی کہیں پر بھی رشتوں کے تقدس کو پامال نہیں کیا ہے۔ البتہ مصنف نے کتاب کا آغاز ’’ہماری بیگم اچھی نہیں ہیں بلکہ بہت اچھی ہیں۔ ہمارا ہر طرح خیال رکھتی ہیں‘‘ لکھ کر کیا ہے۔ بڑا ذو معنی جملہ ہے۔ اس میں بیوی کا احترام، تعریف اور خوف تینوں چیزوں کو بڑی خوبی سے بیان کردیاگیا ہے اور اس میں کامیاب ازدواجی زندگی کا گُر بھی پوشیدہ ہے۔ چونکہ کتب بینی کا رجحان کم ہو گیا ہے جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا ہے اس لیے اقبال ہاشمی کو چاہیے کہ مشتاق احمد یوسفی مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی اس بہترین کتاب کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردیں۔