!!ایسے خواب بھی نہ دیکھنا

618

میری بیوی اپنی اِس خواہش کا اظہار اکثر کیا کرتی تھی بلکہ مطالبے کرنے کے انداز میں کرتی تھی۔ اُس کا یہ مطالبہ سن کر کبھی کبھار مَیں جھلّا جاتا تو اپنی آنکھیں نکال کر بیوی کی طرف دیکھتا اور اُس سے کہتا کہ اب بھی اگر وہ چُپ نہیں ہوتی ہے تو مَیں اپنی پستول نکال لیتا ہُوں۔ بیوی خوف کھانے کے بجائے مسکراتی اور کہتی کہ پستول تو تمہاری مَیں روز ہی دیکھتی ہُوں۔ ایک روز میری بیوی میرے پہلو میں بیٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے کہنے لگی کہ تم ایک بڑے افسر تو ضرور ہو لیکن شاید ابھی بے اختیار ہو جب ہی مہینے مہینے لگی بندھی تنخواہ لے کر آتے ہو اور میری مٹھی میں ڈال دیتے ہو‘ اِدھر مُٹھی کھلی اُدھر پیسے اُڑ گئے۔ میرے نام پر کوئی ایک بینک اکاؤنٹ بھی نہیں ہے‘ شاید تم افسر اعلیٰ بن جاؤ تو میری یہ حسرت پوری ہوجائے۔ میری بیوی شاید میرے افسر اعلیٰ بننے کی تمننا سچّے دل سے کرتی تھی چنانچہ اُس کی یہ خواہش ایک روز پوری ہوگئی اور مَیں واقعی افسر اعلیٰ بن گیا۔ میری تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگیا تھا اور کچھ پیسے بھی پس انداز ہونے لگے تھے۔ ایک روز مَیں نے اپنی بیوی کی دیرینہ خواہش بھی پوری کردی اور ایک بینک میں اُس کے نام سے اکاؤنٹ کھلوا دیا۔
اپنی دولت میں اضافہ کس طرح کیا جاتا ہے‘ اِس بارے میں مجھے اُنہی دنوں میں معلوم ہوگیا تھا جب مَیں نے اپنے پیش رَو افسروں کے گھر آنا جانا شروع کیا تھا۔ اُن کے محل نما مکانات‘ شادی بیاہ کے مواقع پر اُن کے ٹھاٹ باٹ اور دعوتوں میں کھانے اور مشروبات دیکھ کر مَیں جان چکا تھا کہ سونے اور چاندی اُن کے گھروں میں کیسے وارد ہوئے ہیں یعنی یہ کہ مال کمانے کاگُرتو مجھے معلوم ہوگیا تھا لیکن مواقع میرے ہاتھ نہ آتے تھے کیونکہ لین دین کرنے اور ٹھیکوں کے دستاویزات پر مَیں دستخط کرنے کا اختیار نہ رکھتا تھا اور اختیار کے بغیر مَیں اپنے مُنہ سے رال تو ٹپکا سکتا تھا لیکن حلوہ نہ کھا سکتا تھا۔ افسر اعلیٰ بننے کے بعد میرے سارے دلدّر دُور ہوتے چلے گئے۔ مَیں بے تاج بادشاہ بن گیا تھا اور سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید کروانے کا مالک اور مختار ہوگیا تھا۔ مَیں اگر چاہتا تو ٹینکوں کی قیمت میں توپ خرید سکتا تھا اور کسی ٹینک کو ناکارہ قرار دے کر کباڑیے کے حوالے کردیا کرتا اور دوسرے ٹینکوں کی
خریداری کرتے ہوئے نذرانہ بھی وصول کرلیا کرتا تھا۔ میری آمدنی جب چار سے آٹھ اور آٹھ سے ساٹھ ہونے لگی تب مَیں نے سونا اُگلنے والی زمین کوڑیوں کے مول خریدنی شروع کردی اور اُن زمینوں پر بڑے بڑے پلازے کھڑے کرکے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے ماہانہ کمانے لگا تھا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ مجھے ماہانہ ملنے والی رقم روزانہ ملنے لگی تھی۔ جب میرے ہاتھ میں پیسوں کی بہتات ہونے لگی تب مَیں نے بیرونِ ملک بھی جائداد خریدنی شروع کردی۔ قارئین کو یہ جان کر شاید حیرانی ہوگی کہ مَیں نے اپنی وردیوں میں لگانے کے لیے بٹن سونے کے بنوا رکھے تھے جو بے شمار تھے۔ مَیں نے جو پہلی رشوت لی تھی وہ لاکھوں میں نہیں کروڑوں میں تھی۔ ایک زمانہ تھا جب بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوانا میرے لیے بہت دشوار ہوتا تھا۔ یہ مثل کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس اُس وقت سچّی معلوم ہوئی جب مَیں نے متعدّد بینکوں میں اپنے اکاؤنٹ کھلوانے شروع کیے۔ بینکوں کے افسران اور آڈیٹران میرے کاغذات دیکھنے کی زحمت نہ کرتے تھے یہی رویّہ اور برتاؤ جائداد کی منتقلی کے دفتروں کے اہلکار بھی میرے ساتھ کیا کرتے تھے۔ وہ میرا نام سنتے یا پڑھتے ہی میری فائل پر ’مکمّل‘ کی مہر لگا دیتے تھے۔
کہتے ہیں کہ مال کمانا ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ مال کمانے سے زیادہ مال سنبھالنا ایک دشوار گزار عمل ہے۔ تاہم ایک روز یہ مسئلہ بھی حل کرنے کی راہ نکل آئی۔ وہ اِس طرح کہ ایک سیاسی رہنما کو اپنی آمدنی سے زائد مال رکھنے کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا‘ جے آئی ٹی کے ایک رکن نے جب ملزم سے پوچھا کہ اُس کے بینک اکاؤنٹ میں بڑی خطیر رقم کس نے اور کس خدمت کے عوض جمع کروائی تھی‘ جواب میں اُس نے کہا کہ اِس سوال کا جواب تو بہتر انداز میں وہی دے سکتا ہے جس نے اُس کے اکاؤنٹ میںیہ رقم جمع کروائی ہے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اُس کی اہلیہ‘ اُس کی بیٹی‘ اُس کی بہو اور اُس کے بیٹے کے کھاتے میں رقم جمع کروانے والے کون لوگ ہیں تب وہ معصوم صورت بناکے بولا کہ اِس سوال کا جواب تو وہی دے سکتے ہیں جن کے اکاؤنٹ میں رقم آئی ہے یا جن لوگوں نے اُس اکاؤنٹ میں رقمیں جمع کروائی ہیں۔ یہ دلچسپ سوال و جواب مجھے بہت بھایا‘ میرے دل نے کہا کہ اُس زیرک سیاستدان سے مَیں ملاقات کرکے اُسے دادِتحسین دُوں اور مزید کچھ گُر کی باتیں بھی اُس سے معلوم کروں۔ مَیں نے اُس چالاک سیاستدان سے جب کہا کہ تفتیشی ارکان کے ٹیڑھے سوال کا جواب ٹیڑھے انداز میں دیتے ہوئے اُس کے ذرا بھی خوف زدہ نہ ہونے یا بِالکل نہ گھبرانے کا کیا سبب تھا‘ حالانکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ تفتیشی ادارے کے اراکین ملزمان سے پُوچھ گچھ کرتے ہوئے اُن کے ساتھ بعض اوقات تو بہت ناروا سلوک بھی کیا کرتے ہیں‘ میرے استفسار پر وہ مسکرایا پھر اُس نے جو کچھ کہا وہ یوں تھا:
’’ جناب! راجا بھوج اور گنگو تیلی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ مَیں کوئی کلّو قصائی تو ہُوں نہیں اور نہ مَیں نے کسی کی بکری ہی چُرائی ہے کہ تفتیش کاروں نے میرے کپڑے اتار کر مجھے اُلٹا لٹکا دیا اور مَیں نے ایک کے بجائے دو بکریاں چُرانے کا اعتراف کرلیا۔ میرے ساتھ تفتیش کاروں کا حُسن ِ سلوک بلا سبب نہیں تھا‘ ادارے کا کوئی ایک بھی رکن ایسا نہیں ہے جس کی مُٹھی مَیں نے گرم نہ کر رکھی ہو۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اپنے اُن سوالات کے جوابات بھی تو اُنہوں نے ہی مجھے مرحمت کیے تھے‘‘۔
ہوشیاری اور چالاکی کی یہ باتیں سن کر مَیں نے درونِ دل کہا کہ یہ شخص تو چانکیہ کوٹلیہ کا بھی استاد معلوم ہوتا ہے۔ بہرکیف! میرے دل میں ہمہ وقت جو ایک کھٹک سی سمائی رہتی تھی‘ اُس سیاستدان سے ملاقات کرکے میرا وہ سارا خوف جاتا رہا اور مَیں نے بھی اپنی اہلیہ‘ اپنی بیٹی‘ بہو اور اپنے بیٹوں کے ناموں پر متعدد بینکوں میں اکاؤنٹ کھلوالیے۔ مَیں یہ بھی بتاتا چلوں کہ بینکوں کی بعض شاخیں میری جمع کی ہوئی رقم کی مرہونِ منّت تھیں‘ مَیں اپنی رقم بینک کی اُن شاخوں سے اگر نکلوا لیتا تو وہ شاخیں شاید چل نہ پاتیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے اور اپنی خوشیوں کو دوبالا کرنے کی غرض سے مَیں اپنی آمدنی کا حقیقی گوشوارہ ذیل میں پیش کر رہا ہُوں۔ میرے نام پر جو جائدادیں ہیں اُن کی مالیت ہے دو ارب روپے جبکہ بینکوں میں پڑی ہوئی پاکستانی رقم اور زرِ مبادلہ کی مالیت تقریباً پچاس کروڑ روپے ہے۔ مَیں نے اپنی اہلیہ کے نام پر جو جائداد خرید رکھی ہیں اُن کی ساکھ تین ساڑھے تین ارب روپے کے برابر ہے اور بینکوں میں پڑی ہوئی رقم چالیس پینتالیس کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ میرے فرزندان اور میری بہو کے نام پر جائداد کی مالیت تین ارب روپے کے برابر ہے جبکہ بینکوں میں اُن کے نام پر ساٹھ کروڑ روپے رکھے ہوئے ہیں۔ میرے بچّوں کی جائداد اور زرِمبادلہ بیرونِ ملک بھی ہیں جن کی مالیت کم وبیش تین ساڑھے تین ارب روپے کے برابر ہے۔
صبح ہونے پر مَیں جب بیدار ہُوا تب میرے سامنے اخبار پڑا تھا سب سے بڑے افسر کے کھاتوں ٹیکس گوشواروں خاندان کی جائداد کا حساب تھا میں ایک باؤلا بن کے اُٹھا‘ مَیں بار بار اپنا سر کھجاتا تھا اور دل ہی دل میں یہ کہتا تھا کہ یہ کیسا خواب تھا جو مَیں دیکھ رہا تھا۔ کہاں ایک لکھاری اور کہاں افسر اعظم۔ کہاں گنگو تیلی اور کہاں راجا بھوج۔ ہمارے جیسوں کے لیے تو ایسے خواب بھی دیکھنا جرم ہے۔ اس تحریر میں کسی قسم کی مماثلت محض اتفاق ہے ہمارا ارادہ کیا خواب میں بھی ایسا کوئی خیال نہیں تھا۔