ہم مسلمان ہیں یا بھینسے

468

ہمارا کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب یہ خبر نہ آتی ہو کہ آج فلسطین میں اسرائیلی فوجیوں نے فلسطینی نوجوانوں کو شہید کردیا یہ سلسلہ تقریباً روزآنہ کا ہے بس تعداد کم زیادہ ہوتی رہتی ہے فلسطینی نوجوان غلیل سے صہیونی فوجی درندوں کا مقابلہ کرتے ہیں اور پھر اسرائیلی فوجی انہیں براہ راست اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اب تو کسی عرب ملک کی طرف سے بالخصوص اور دیگر مسلم ممالک کی طرف سے بالعموم ان کے حق اور اسرائیل کی مذمت میں کوئی بیان تک نہیں آتا بلکہ اب ہو یہ رہا ہے کہ عرب ممالک اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔ ایک زمانے میں حماس کے لوگ اسرائیل کے اندر ہر کچھ عرصے کے بعد خود کش دھماکا کرتے تھے بلکہ خود کش دھماکوں کا آغاز فلسطین ہی سے ہوا تھا اسرائیل اس سے بڑا پریشان تھا کیوںکہ باہر کی دنیا سے یہودیوں کو اسرائیل میں بلا کر رہائش اختیار کرنے کی کوششوں پر منفی اثرات پڑرہے تھے۔ بہر حال اسرائیلی حکام سر جوڑ کر بیٹھے اور یہ فیصلہ ہوا کہ حماس کو سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی جائے، الیکشن میں حصہ لینے کی آزادی دے دی گئی اس کے بعد سے اسرائیل کے اندر خود کش حملوں کا سلسلہ ختم ہوگیا لیکن حماس کی سابقہ جدوجہد کا ایک ثمر یہ ملا کے انہیں ایک سیاسی اور عسکری تنظیم کی حیثیت سے اسرائیل کو تسلیم کرنا پڑا اب غزہ کی پٹی سے اپنے دفاع کے لیے حماس کے لوگ راکٹ مارتے ہیں اس کے جواب میں فلسطین کے بے گناہ نوجوان مارے جاتے ہیں۔ ان مظلوم فلسطینی شہیدوں کے قتل عام میں عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی قابل مذمت ہے۔
اب آجائیے کشمیر کی طرف یہاں بھی بھارتی فوجی روزآنہ مظلوم کشمیری نوجوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں کشمیری مجاہدین کو پاکستان کی طرف سے جو اخلاقی اور سفارتی حمایت ملتی تھی اس میں بہت کمی آگئی ہے اب حکومت پاکستان نے بھارت کی مذمت کرنا، احتجاج کرنا اور دنیا کو بھارت کے مظالم سے آگاہ کرنا تقریباً چھوڑ دیا ہے ہمارے یہاں ایک کشمیر کمیٹی بھی ہے اس کے سربراہ کی ساری مراعات وہی ہیں جو ایک وفاقی وزیر کی ہوتی ہیں ایک زمانے میں مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان اس کے سربراہ ہوتے تھے اس زمانے میں یہ کمیٹی کچھ فعال تھی لیکن بعد میں جب مولانا فضل الرحمن اس کے سربراہ بنے اور جو کافی عرصے رہے لیکن ان کے دور میں اس کمیٹی کی کارکردگی صفر تھی البتہ مولانا اس کی مراعات سے ضرور مستفیض ہوتے رہے۔ خیر یہ بات تو ضمناً آگئی اصل مسئلہ یہ کہ روزآنہ جو کشمیری مجاہدین ظالم بھارتی فوجوں کی گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں او آئی سی اور تمام مسلم ممالک نے خاموشی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ بھارت میں بھی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ بھارتی حکومت کا رویہ تعصب پر مبنی ہے، کوئی نہتا مسلمان کہیں بی جے پی کے دہشت گردوں کو مل جائے تو اس پر گائے کا گوشت کھانے کے جھوٹے الزام میں شدید تشدد کا نشاہ بنایاجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو جان سے مار دیا جاتا ہے لیکن پوری دنیا مسلمان ممالک سمیت ٹس سے مس نہیں ہوتی بلکہ اور انعام میں اسے G20 کا سربراہ بنادیا جاتا ہے۔
میانمر (برما) میں 8 سے10سال قبل مسلمانوں کا جو قتل عام ہوا جس میں مقامی برمیوں کے علاوہ وہاں کی فوج بھی شامل تھی اس نے مسلمان آبادیوں میں آگ لگائی،مسلمانوں کو گولیوں سے بھون دیا گیا ان کو شدید قسم کی اذیتیں دے دے کر جان سے مار دیا گیا لاکھوں میانمر کے مہاجرین بنگلا دیش میں ہیں اور اسی طرح ہزاروں برمی مسلمان جان بچانے کے چکر میں کشتی میں سوار ہوجاتے اور پھر ضرورت سے زیادہ تعداد کی وجہ سے وہ کشتی سمندر میں ڈوب جاتی لیکن اقوام متحدہ اور مسلم ممالک نے ان مظلوم برمی مسلمانوں کے لیے کوئی موثر آواز نہیں اٹھائی۔ بنگلا دیش کی ظالم عورت نے جماعت اسلامی کے 15سے زائد رہنمائوں کو سیاسی دشمنی میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا صرف ترکی نے اس پر موثر آواز اٹھائی تھی باقی دنیا خاموش رہی اور بھی دنیا میں جہاں جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے ہمار معاملہ یہ ہے کہ ہم (مراد مسلمان ممالک) اس پر کوئی آواز نہیں اٹھاتے ایک جماعت اسلامی پاکستان ہے جو دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم و درندگی کا بازار گرم ہوتا ہے وہ موثر آواز اٹھاتی ہے اور اس کے لیے احتجاج بھی کرتی ہے جلسے جلوس مظاہرے کیے جاتے ہیں لیکن مسلم حکمران اس پر خاموش رہتے ہیں۔
اب غیر مسلم ممالک کے حکمرانوں کے طرز عمل کی بات کرتے ہیں۔ ایک پاکستانی ایمل کانسی جو امریکا میں تھے ان پر امریکا نے الزام لگایا کہ انہوں نے دو سی آئی اے کے افسران کا قتل کیا ہے اور پاکستان آگئے امریکا کی عدالت نے ان کو قاتل قرار دیا امریکی حکام پاکستان آئے نوازشریف کی حکومت ان کے سامنے لیٹ گئی اور خود حکومت نے مخبری کی کہ ایمل کانسی کہاں چھپے ہوئے ہیں امریکی حکام ایمل کانسی کو پکڑ کر لے گئے اور کچھ دن بعد انہیں سزائے موت دے دی گئی۔ ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس پاکستان آیا اس کی سرگرمیوں کو چیک کرنے کے لیے ہماری خفیہ ایجنسی کے اہلکار اس کی مانیٹرنگ کررہے تھے کہ اس نے فائرنگ کرکے دونوں پاکستانی اہلکاروں کو جان سے مار دیا، آصف زرداری اس وقت صدر تھے اور شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے یہ مقدمہ عدالت میں گیا ریمنڈ ڈیوس کو گرفتار کرلیا گیا پوری امریکی حکومت نے پاکستان پر شدید دبائو ڈالا تو حکومت پاکستان نے ورثاء کو اپنی طرف سے دیت کی رقم ادا کرکے ان کو رہا کردیا پھر ہمارے دو پاکستانیوں کا قاتل بڑی عزت کے ساتھ پاکستان سے فرار ہو گیا۔ جس ڈاکٹر نے اسامہ بن لادن کی مخبری کی تھی وہ پاکستان کی قید میں ہے امریکا اس کو چھڑانے کے چکر میں جبکہ ہماری ایک بے گناہ خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی طویل عرصے سے امریکی قید میں ہے اور ہماری حکومت ڈاکٹر عافیہ کے لیے کچھ نہیں کررہی۔ توہین رسالت کے کیس میں ایک پاکستانی عیسائی عورت کو عمر قید کی سزا ہوئی پورے مغرب اور امریکا سمیت یورپ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اور بالآخر ہمارے حکمرانوں نے اسے رہا کردیا جو یورپ کے کسی ملک میں چلی گئی۔ جہاں اس کو بڑا وی آئی پی پروٹوکول دیا گیا اور وہ آرام سے رہ رہی ہے اسی طرح کے اور بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں بس ہمیں تو مسلم اور غیر مسلم حکمرانوں کا اپنے شہریوں کے لیے کیا طرز عمل ہے وہ بتانا تھا۔
ایک تربیتی اجتماع میں شرکاء اجتماع کو پروجیکٹر کے ذریعے ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی کہ ایک شیر نے جنگل میں ایک بھینسے کا پیچھا کیا وہاں اور بھی بھینسے تھے بالآخر شیر نے اس پکڑلیا دیگر بھینسے خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے اور وہ شیر ان سب کے سامنے بھینسے کو چیڑ پھاڑ کر کھا گیا سارے بھینسے خاموش رہے پھر ایک دوسرا منظر اس طرح آیا کہ شیر نے ایک بھالو کا پیچھا کیا اس نے شور مچاکر اپنے دیگر بھالو ساتھیوں کو جمع کیا شیر اس بھالو کا پیچھا کرتا رہا پھر وہ بھالو ایک جگہ پانی میں کود گیا شیر بھی کود گیا لیکن اتنی دیر میں دیگر بھالو بھی وہاں پہنچ چکے تھے انہوں نے پانی کے چاروں طرف کھڑے ہو کر اتنا شور مچایا کہ شیر ان کے شور سے گھبرا گیا اور بھالو کو چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اس فلم سے کیا یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ہم سب مسلمان ایک بھینسے کی طرح ہو گئے ہیں۔