ڈبل گیم تو قوم کے ساتھ ہورہا ہے

662

پاکستان میں ایک کے بعد ایک نیا شوشا چھوڑا جارہا ہے۔ قوم گزشتہ ایک سال سے امریکی سائفر کے بارے میں بحث میں پڑی ہوئی تھی۔ اس دوران عمران خان کی حکومت ختم کردی گئی تو سائفر کے بیانیہ میں زور پیدا ہوگیا لیکن یہ بیانیہ بھی تیزی سے بدلتی صورت حال اور روز روز کے شوشوں کی وجہ سے تبدیل ہوتا چلا گیا۔ سائفر، امریکی مداخلت، فوج کی مداخلت، نیوٹرلز، عدالتی فیصلے، تحریک عدم اعتماد، پنجاب میں بحران اور مسلسل لانگ مارچ، حقیقی آزادی لانگ مارچ، جمہوریت بحالی مارچ بن گیا۔ باجوہ سارے مسائل کی جڑ قرار دیے جارہے تھے، وہ چلے گئے۔ ایک ایک کرکے نئے شوشے سامنے آرہے ہیں کہ باجوہ نے مداخلت کی تھی، ہمیں (ق لیگ) کو عمران کے ساتھ جانے کا کہا تھا، مونس الٰہی۔ گویا مداخلت ہوئی تھی لیکن عمران کے حق میں اور اب پرویز الٰہی نے بیچ بچائو کرانے کے انداز میں کہا ہے کہ باجوہ نے ڈبل گیم کیا، نہ عمران نے، تو پھر کس نے یہ سب کیا۔ اصل بات یہ ہے کہ ڈبل گیم عوام کے ساتھ ہورہا ہے۔ جو لوگ کل تک ایک تھے ایک دوسرے سے اچانک لڑنے لگے پھر اب اچانک ایک ہوگئے۔ قوم حیران ہے کہ کس چیز پر یقین کرے۔ فیصلہ کسی چیز کا نہیں ہوا۔ سائفرکا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ایک طرف سے پکا پکا سازش کا دعویٰ دوسری طرف سے اسے جھوٹ قرار دیا جارہا ہے اور جسے سب کچھ عدالت میں لانا چاہیے وہ لاتا نہیں۔ اور عدالت کو اس معاملے میں ازخود نوٹس لینے کی فرصت نہیں۔ اسی طرح فوج نے مداخلت کی تھی یا نہیں کی تھی۔ ایک فریق بارہا کہہ رہا ہے کہ فوج نے مداخلت کی تھی اب جس کے اوپر الزام ہے کہ اس کے لیے مداخلت کی تھی وہ خود کہہ رہا ہے کہ باجوہ نے مداخلت کی تھی۔ لیکن وہ پھر نیوٹرل ہوگئے۔ ان کے نیوٹرل ہونے پر بھی بہت شور مچا لیکن وہ نیوٹرل بھی رہے اور ہدایات بھی دیتے رہے۔ جو عدالتی فیصلہ حکومت کو اچھا لگا وہ انصاف تھا اور جو پی ٹی آئی کو اچھا لگا وہ عین انصاف تھا۔ باقی سب بیکار تھا۔ قوم چار ماہ سے حقیقی آزادی لانگ مارچ کے نتائج کی منتظر تھا اور لانگ مارچ امریکا سے حقیقی آزادی کے دعوے کے ساتھ چل کر اسمبلیاں توڑنے کے اعلان پر ختم ہوگیا۔ ابھی توڑی نہیں گئی ہیں اور ان اسمبلیوں کو توڑا بھی کیسے جائے۔ عمران خان کو قلق ہے کہ سندھ بدقسمتی سے زرداری مافیا کے جبر میں ہے ہم اسے آزاد کرائیں گے۔ یعنی ایک اور آزادی مارچ، لیکن عمران خان بھول گئے کہ وہ پنجاب کو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کے حوالے کرگئے ہیں، پہلے اس سے قبضہ چھڑالیں تو بڑی بات ہوگی۔ چودھری پرویز الٰہی اسمبلی توڑنے پر راضی ہیں لیکن توڑیں گے نہیں۔ اب وہ عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں کہ میر جعفر اور میر صادق نہیں کہنا چاہیے تھا۔ لیکن زبان سے نکلی بات اور کمان سے نکلا تیر تو واپس نہیں آتا اور یہاں کپتان کی زبان کمان سے زیادہ تیز رفتار سے تیر پھینکتی ہے۔ وہ عمران کو لیڈر بھی کہہ رہے ہیں اور ان کے پنجاب میں اوپننگ بیٹسمین عثمان بزدار کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کہ کپتان کی سابقہ ناتجربہ کار ٹیم نے پنجاب کا بیڑا غرق کردیا۔ پھر بھی عمران خان کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے ڈبل گیم نہیں کی۔ پنجاب میں بحران کس نے پیدا کیا، اس سوال کا جواب بھی قوم کو نہیں مل سکا۔ حمزہ چند روز وزیراعلیٰ رہے اور اب پرویز الٰہی ہیں۔ لانگ مارچ میں عمران خان پر حملہ ہوا، آج تک اس کی ایف آئی آر نہیں کٹ سکی، کون ذمے دار ہے۔ وزیراعلیٰ، پنجاب پولیس یا خود پی ٹی آئی۔ عوام اس مسئلے کو بھی حل نہیں کرسکے کہ اگر اتنا سنگین حملہ ہوا ہے تو کسی سطح کی ایف آئی آر تو کٹوا لیتے، حملے کی ایف آئی آر کے ساتھ جن لوگوں پر شبہات ہیں ان کے ناموں کے ساتھ درخواست دے دیتے لیکن نہ ایف آئی آر کٹی نہ تحقیقات ہوئی۔ تحقیقات میں بہت کچھ کھولنا پڑتا۔ پنڈلی بھی اور مٹھی بھی۔ بہرحال عوام کو اس حملے کے حقائق کا بھی پتا نہیں چلے گا۔ قوم کو ایک اور جھنجھنا تھمایا گیا تھا کہ آرمی چیف کون بنے گا۔ عمران کا آرمی چیف آیا تو یہ ہوجائے گا، وہ ہوجائے گا، اور پی ڈی ایم کا آرمی چیف آیا تو وہ عمران خان کو سیاست سے باہر کردے گا۔ لیکن یہ دونوں گروہ جانتے ہیںکہ آرمی چیف آرمی کا آنا ہے عمران، پی ڈی ایم یا کسی سیاسی گروہ کا نہیں پھر وہ جس کی چاہے سرپرستی کرے یہ اس کی مرضی ہوتی ہے لیکن قوم کو کئی ماہ آرمی چیف کے بخار میں مبتلا رکھا گیا۔ آج چودھری پرویز الٰہی بتارہے ہیں کہ آرمی آفیسرز اور ججز کے خلاف آئینی طور پر ایف آئی آر نہیں کٹوائی جاسکتی۔ یہ آئین عمران پر حملے اور آرمی افسر کے نام لینے کے وقت بھی تھا نیا تو نہیں بنا ہے۔ اب یہ بتانے کی کیا ضرورت تھی، اب نیا شوشا آیا ہے کہ انتخابات اکتوبر سے پہلے ہوں گے یا بعد میں۔ گویا کھیل عمران خان کے ہاتھ سے نکل گیا۔ اب چودھری پرویز الٰہی نے بتایا ہے کہ الیکشن کے لیے میز پر بات کرانے والے آگئے ہیں۔ قوم کو اب تک کیا ملا۔ کبھی عمران کے پیچھے کبھی پی ڈی ایم کے پیچھے، اب نئے آرمی چیف کے پیچھے۔ ڈبل گیم اسی کو کہتے ہیں۔ اب انتخابات کے لیے مذاکرات کی میز سجے گی اور لگتا یہی ہے کہ عمران رفتہ رفتہ میز سے باہر کردیئے جائیں گے۔