قومی زبان یا قومی مذاق

627

پاکستان میں اردو قومی زبان سے کہیں زیادہ قومی مذاق کا درجہ حاصل کرتی جا رہی ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ پاکستان میں جس چیز کے ساتھ ’’قومی‘‘ لگ جاتا ہے یا لگا دیا جاتا ہے اس کی حالت آثارِ قدیمہ کی سی ہو کر رہ جاتی ہے جیسے پاکستان کا قومی پھول یاسمین یا قومی کھیل ہاکی۔ جو حالت ان دونوں کی ہے وہ قابل ِ رحم اور قابل ِ عبرت سے کم نہیں۔
بات سوشل میڈیا کی ہو، ٹیلی ویژن چینلوں کی ہو یا پرنٹ میڈیا کی، عالم یہ ہے کہ جو کچھ چھاپا جا رہا ہے، سنایا جا رہا ہے، دکھایا جا رہا ہے یا پڑھایا جا رہا ہے، لگتا تو ہے کہ وہ شاید اردو ہی ہو لیکن میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس کا اردو سے دور دور تک کوئی تعلق بنتا ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنی زبان میں انگریزی کے بے شمار الفاظ اس کثرت کے ساتھ بولتے ہیں کہ وہ ہر جملے کی چالیس سے پچاس فی صد تحریر پر غالب ہوتے ہیں۔ یہی حال تحریروں کا ہے اور یہی حال اس ماحول کا ہے جو ڈراموں، عام دلچسپی کی پروگراموں اور بحث و تمحیص کے اوقاتِ کار کے لیے مختص ہوتا ہے۔ حد یہ ہے کہ ایسے خاص پروگرام جو شاعری اور ادبی نشستوں پر مشتمل ہوتے ہیں وہاں بھی اردو کے ساتھ جو مذاق کیا جا رہا ہوتا ہے اس سے ہمارے قومی ’’مذاق‘‘ کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارے حال کا اندازہ اردو کے معاملے میں دلاور فگار کے اس قطعہ سے خوب اچھی طرح لگایا جا سکتا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ
اک یونی ورسٹی میں کسی سوٹ پوش سے
پوچھا جو میں نے آپ ہیں کیا کوئی سارجنٹ
کہنے لگے کہ آپ سے مس ٹیک ہو گئی
آئی ایم ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ
اس میں کوئی شک نہیں کہ انگریزی کے بے شمار الفاظ اردو زبان میں کچھ اس طرح جذب ہوگئے ہیں کہ جیسے وہ اردو ہی کے ہوں اور بعض ان میں ایسے ہیں جن کے مفاہیم جو انگریزی میں ہیں وہ اردو میں اس معنوں میں استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جیسے ہم ’’کاپی‘‘ جس کا اردو ترجمہ ’’نقل‘‘ بنتا ہے، اس کو ہم نقل کے معنوں میں کم اور انگریزی کے لفظ ’’نوٹ بک‘‘ کے معنوں میں زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ جیسے اردو کی یا انگریزی کی کاپی خریدنا ہے وغیرہ۔ پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ انگریزی کے جو الفاظ اردو میں بکثرت بولے جاتے ہیں اگر ان کو جمع کے صیغے میں لیا جاتا ہے تو ہم اسے انگریزی کے اصولوں کے بجائے اردو تراکیب میں استعمال کرتے ہیں مثلاً کاپی کی جمع کاپیز نہیں کاپیوں بناتے ہیں۔ پھر یہ کہ اردو میں ضم ہوجانے والے الفاظ انگریزی یا کسی بھی زبان کے ہوں، ان جیسا مفہوم رکھنے والے اردو کے الفاظ اگر استعمال میں بھی لے آئے جائیں تو ایک جانب تو کافی افراد کو ان کا مطلب سمجھ ہی میں نہیں آئے گا اور اگر لوگ سمجھ بھی جائیں تو شاید وہ آنکھوں اور کانوں کو اتنے بھلے نہ لگیں جتنے وہ انگریزی یا دوسری کسی زبان میں ادا کرنے یا لکھنے کے بعد لگتے ہیں۔ مثلاً انگریزی کا ایک لفظ جسے ہم بکثرت استعمال کرتے ہیں وہ ہے ’’پروگرام‘‘۔ یہ لفظ اردو میں کچھ یوں ضم ہو کر رہ گیا ہے کہ ہماری نئی نسل شاید ہی اس بات کو تسلیم کرے کہ یہ خاندانِ انگلشیا سے تعلق رکھتا ہے۔ اب کوئی بھی بڑے سے بڑا دانش مند مجھے یہ سمجھائے کہ اردو کا وہ کون سا ایسا لفظ ہوگا جو پروگرام کے مفہوم کا پورا پورا حق ادا کر سکے لہٰذا ایسے الفاظ، جو ہوں تو انگریزی کے اور اردو زبان میں اس خوبی کے ساتھ ضم ہو گئے ہوں کہ وہ جزوِ لاینفک بن گئے ہوں، اوران کو اپنی بول چال یا تحریروں میں استعمال کیا جاتا ہو تو اس میں میرے نزدیک کوئی برائی نہیں لیکن زبردستی اپنی قابلیت کا لوہا منوانے کے لیے اپنی گفتگو یا تحریروں میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال ایک جانب تو ہماری ذہنی پسماندگی کی سمت اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب آپ کی تحریر اور گفتگو اپنی خوبصورتی کھو دیتی ہے اور آپ تسلیم کر رہے ہوتے ہیں کہ آپ ایسی زبان کے حامل ہیں جو دوسری زبانوں کے سامنے بہت چھوٹا درجہ رکھتی ہے۔
یہ بات کوئی انگریزی زبان کے لیے خاص نہیں کہ اس کے بہت سارے الفاظ، معنی و مفاہیم کا ایسا ہجوم رکھتے ہیں جو کسی اور زبان کے کسی ایک ’’لفظ‘‘ میں پوشیدہ نہیں ہوتا۔ جیسے پروگرام، چیلنج یا نوٹ وغیرہ۔ ہر زبان میں بے شمار ایسے الفاظ ہوتے ہیں جن کے لیے ویسا ہی لفظ تلاش کرنا جس میں اسی جیسے پورے پورے معنیٰ ہوں، ناممکن ہوتا ہے۔ مثلاً اردو کا ایک لفظ ہے ’’فرق‘‘۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کو بہت سارے معنوں اور بہت سارے انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ یوں تو اس کے معنیٰ جدائی، دوری، فاصلہ، بعد، ہجرت، اختلاف، تضاد، امتیاز، تمیز، بیگانگی اور غیریت کے ہیں لیکن ایک واضح مفہوم ’’عدل‘‘ کا بھی ہے۔ سیدنا عمرؓ کا ایک خطاب ’’فاروق‘‘ کا بھی ہے۔ فاروق کا مطلب فرق سمجھنے والے یا کرنے والے کے بھی ہوا کرتے ہیں۔ ایک بہترین عادل ہو ہی وہ سکتا ہے جو اچھے برے، نیک و بد، ظالم اور مظلوم، حق و ناحق کے فرق کو بہت اچھے طرح سمجھتا ہو۔ ہم کسی رقم میں سے کسی رقم کو گھٹانے کے عمل کو اردو میں ’’تفریق‘‘ کہتے ہیں جس کو انگریزی میں ’’مائینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی مقدار میں سے کچھ مقدار کو جدا کرنا۔ اسی فرق سے ایک لفظ نکلا ہے ’’فرقہ‘‘ یعنی مذہبی نقطہ نظر سے کچھ لوگ اپنے آپ کو بہت ساری رسوم یا دین کو سمجھنے کے معاملے میں الگ سمجھنے لگیں۔ گویا یہ بھی ایک فرق ہوا۔ اسی طرح آپ فرقت کو لے لیں، تمیز کو لے لیں، غیریت کو لے لیں، یہ سب ایک ہی معنوں یعنی ’’فرق‘‘ کے ساتھ جڑے نظر آئیں گے یعنی کچھ لوگ اپنے آپ کو دوسروں سے الگ، مختلف یا جدا سمجھنے لگیں۔ شب ِ فرقت کا لفظ بہت استعمال کیا جاتا ہے اور خاص طور سے شعرا کی شاعری میں یہ لفظ بہت استعمال ہوتا ہے۔ شب ِ فرقت بھی دوسروں سے دوری اور جدائی ہی کی رات ہوا کرتی ہے گویا یہ ان راتوں سے مختلف ہوتی ہے جو سب کے ساتھ گزاری جائے۔ المختصر یہ کہ بظاہر لفظ فرق ایک سادہ سا لفظ نظر آتا ہے لیکن اپنے انداز، معنوں اور مفاہیم میں اپنے اندر اتنی وسعت رکھتا ہے کہ کسی دوسری زبان میں صرف ایک لفظ کے اندر اتنے مفاہیم کی موجودگی ہونا مشکل ہی نہیں ناممکنات میں سے ہے۔
پاکستان میں المیہ صرف یہ ہی نہیں کہ ہم زبردستی کسی غیر زبان کو اردو میں ٹھونسے جا رہے ہیں بلکہ ستم در ستم یہ ہے کہ نہ تو ہم اردو کے الفاظ کی ادائیگی کو درست رکھنے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی اس کے املا کی جانب ہماری توجہ ہے۔ اگر آپ رسالوں، اخبارات، ٹی وی چینلوں پر چلنے والی ’’پٹیوں‘‘ (ٹکر) اور شرکاء و میزبانوں کی باتوں کو سنے اور تحاریر کو پڑھیں تو آپ اپنا سر پیٹ کر رہ جائیں۔ جب تحریروں کا یہ عالم ہو کہ ان کے لکھے جانے میں، ’’ث س ص‘‘، ’’ذ ز ض ظ‘‘ یا ’’ت ط‘‘ کی تمیز ہی ختم ہو جائے اور بولنے والے زیر زبر پیش کے فرق کو ہی نظر انداز کردیں تو پھر اس پر اردو کو قومی زبان قرار دینے پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
جب عالم یہ ہوجائے کہ بولنے اور لکھنے والوں کو یہ تک تمیز نہ رہے کہ ’’نے‘‘ اور ’’کو‘ کا استعمال کہاں اردو ہے اور کہاں اردو ہی نہیں، تو پھر پاکستان کی قومی زبان کو معیشت کے زوال کے اس آغاز سے جوڑنا کوئی انہونی نہیں ہوگا جب ہمارے پاکستان کی ایک ایک مل، کارخانے، کاروباری مرکز حتیٰ کہ تعلیم گاہوں تک کو ’’قومی‘‘ قرار دیکر پاکستان کی تباہی و بربادی کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ افسوس یہ ہے کہ اس کے زوال کا سلسلہ ایک تسلسل کے ساتھ آج تک جاری و ساری ہے۔
موجودہ دنیا میں جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں وہ سب کے سب اپنی اپنی قومی زبانوں کو رواج دینے اور اپنی درس گاہوں میں تمام عام و خاص کو تعلیم دینے کی وجہ سے ترقی کے اس عروج کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ بے شک اور بھی ایسے ممالک ہیں جنہوں نے اپنی قومی زبان کے بجائے ذریعہ تعلیم انگریزی یا کسی اور ملک کی زبان کو بنایا ہے اور ان کی معاشی حالت بھی خوش کن ہے، ایک خط ِ امتیاز ان دونوں قسم کے ممالک میں کھنچا ہوا اور صاف نظر آئے گا اور وہ فرق ہوگا حاکم و محکوم کا۔
اردو کو قومی زبان کہا جاتا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ تقسیم سے قبل مشرقی و مغربی پاکستان کے خطوں میں رہنے والے باسیوں میں سے کسی کی بھی زبان نہیں تھی بلکہ تقسیم کی وجہ سے آبادیوں کے انتقال کے نتیجے میں کافی بڑی تعداد میں ان خطوں کی جانب ہجرت کرکے آنے والوں کی زبان تھی۔ برِ صغیر میں رابطے کے طور پر دوہی زبانوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی تھی اور ہے۔ ان میں ایک ’’ہندی‘‘ تھی اور ایک ’’اردو‘‘۔ تقسیم کے اسباب میں جہاں مذہب کا واضح عمل دخل تھا وہیں ان دونوں زبانوں کا بھی بہت بڑا کردار شامل تھا اس لیے کہ برِ صغیر میں رہنے والے مسلمان اس وقت بھی اور آج بھی اپنا ذریعہ تعلیم اردو میں رکھنے کے حامی تھے اور ہندو ہندی میں۔ ممکن ہے کہ اردو کا پاکستان میں جس انداز میں حلیہ بگاڑا جا رہا ہے اس کی ایک یہ وجہ بھی رہی ہو، لیکن یہ بات طے ہے کہ جب تک ہر ملک، علوم و تراکیب کے سارے ذخیروں کے ترجمے اپنی زبان میں کرکے اپنے عوام کو اپنی قومی زبان میں تعلیم دینے کو اپنا شعار نہیں بنائے گا، اپنی تہذیب کے اقدار کو فروغ نہیں دے گا اور اپنی ترجیحات میں اپنے اپنے رسوم و رواج کو صف اول میں لے کر نہیں آئے گا، اس وقت تک وہ دیگر اقوام کی غلامی سے اپنے آپ کو آزاد نہیں کرا سکے گا۔ اب یہ فیصلہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کو کرنا ہے کہ وہ آزادی کے 75 سال بعد بھی غلامی جیسی زندگی گزارنا چاہتے ہیں، اپنی قومی زبان کو قومی مذاق بنا کر رکھنا چاہتے ہیں یا پھر ترقی کی دوڑ میں برابری کی بنیاد پر حصہ لینا چاہتے ہیں۔