بچوں کا ادب اور درپیش مسائل

402

دنیائے ادب اطفال کے لیے اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ نومبر کے مہینے میں ادبیاتِ پاکستان کے زیر اہتمام تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں کیا گیا۔ اس کانفرنس کی اہمیت اس لیے دو چند ہے کہ پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ میں ایسی کانفرنس پہلی بار منعقد ہوئی۔ چھوٹی بڑی محفلوں اور دوستوں سے یہ کہتے کہتے ہمارے گلے خشک ہوگئے کہ بچوں کے ادب میں بہتری اسی صورت ممکن ہے، جب بچوں کے ادب کو تنقیدی نظر سے گزارا جائے۔ کیونکہ ہمارے ہاں ہر نیا پرانا ادیب بچوں کی تربیت کے نام پر ایسی ایسی کہانیاں تخلیق کررہا ہے کہ وہ بچوں کو لطف فراہم کرنے کے بجائے ان کی نفسیاتی اْلجھنوں میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس کا خطرناک نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے بچوں کے سینئر ادیب بھی اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ بچوں کے ادب کے ذریعے بچوں کی تربیت کا انتظام کرنا ہے یا اْنہیں تفریح کے مواقع فراہم کرنے ہیں۔ اب ایک گروہ ایسا ہے کہ وہ اپنی ہر تحریر میں نصیحتوں کا پٹارا کھول کر بیٹھ جاتا ہے اور یہ تہیہ کرلیتا ہے کہ ہر بچے کو جنید بغدادی یا پھر رابعہ بصری بنانا ہے۔ دوسری جانب دوسرا گروہ پاکستان کی حد تک بہت کمزور ہے لیکن ممکنہ حد تک وہ کوشش کرتا ہے کہ کوئی اچھی بات بچہ سیکھ نہ پائے یا وہ پھر اپنی نشستوں میں ہونے والی گفتگو میں یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ تحریروں کو کسی قسم کی نصیحتوں سے پاک صاف رکھا جائے۔
بچوں کے ادب میں ہونے والی تنقید واحد چیز ہے جو ہمیں ان معاملات میں نہ صرف راستہ دکھاتی ہے بلکہ اعتدال کی جانب بھی راغب کرتی ہے۔ بچوں کے مشہور زمانہ ناول کمانڈو فور کے مصنف منیر احمد راشد اس حوالے سے بہت سی اْلجھنوں کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں کہ ادیب کو ایک اچھی اور مزے دار کہانی تخلیق کرنی چاہیے جو بچے کو محظوظ کرے، رہی یہ بات کہ اس میں سبق ہونا چاہیے یا نہیں، یہ لکھنے والے کے اپنے کتھارسس پر مبنی ہے۔ اگر لکھنے والے کے دل میں اچھائی ہوگی تو اس کا قلم کچھ تخلیق کرتے وقت اچھے خیالات ہی لکھے گا۔ اور اگر اس کے اپنے دل میں برے خیالات پنپتے ہوں گے تو ظاہر ہے وہی کچھ اس کی تحریروں میں بھی نظر آئے گا۔ سیدھی سی بات ہے کہ کوئی بچہ بْرے کردار کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی والدین بچوں کو ایسے کسی قلم کار سے متعارف کرواتے ہیں، جو ایسی کہانیاں لکھتا ہو۔ اس لیے بچوں کے ادب میں یہ بات شفافیت کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے والے ہمیشہ نیکی کی ترغیب ضرور دیں گے اور بْرائی سے بچنے کی تلقین کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ان موضوعات پر کبھی مل بیٹھ کر بات نہیں ہوئی، کچھ لکھا بھی گیا تو بہت ہی کم۔ یا پھر اْنہوں نے لکھا جو بچوں کے لیے نہیں لکھتے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی تھی کہ بچوں کے لیے لکھنے والے ہی ان مسائل کے لیے خود سوچیں، ان کے حل تلاش کریں اور مستقبل میں لکھتے ہوئے کچھ اچھا تخلیق کریں۔
اکادمی ادبیات پاکستان کے یوسف خشک، اختر رضا سلیمی، عادل ریاض اور دائرہ علم وادب کے ڈاکٹر افتخار کھوکھر، احمد حاطب صدیقی کا شکریہ کہ ان کی ذاتی دل چسپی اور کوششوں سے اتنی اہم کانفرنس کا انعقاد ممکن ہوسکا۔ اس کانفرنس میں اصل مسائل پر بات ہوئی۔ مختلف مذاکروں اور مقالوں میں بہت اہم نکات کے ذریعے ادب اطفال کے مختلف زاویوں کو زیر بحث لایا گیا۔ مختلف عنوانات کے تحت درج ذیل موضوعات پر مقالہ نگاروں کے مقالوں اور مذاکروں میں شریک شرکا نے اپنی اہم گفتگو کے ذریعے ادب اطفال کی مختلف جہتوں پر روشنی ڈالی۔ پاکستانی زبانوں میں بچوں کا ادب، بچوں کی دل چسپی کے موضوعات اور نئے امکانات، بچوں کے ادب کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز، بچوں کی تربیت میں ادب کا کردار، بچوں کا ادب: ثقافت اور حب الوطنی، بچوں کے رسائل کا معیار، رجحانات اور امکانات، ڈیجیٹل عہد اور بچوں کا ادب، بچوں کا شعری ادب، بچوں کا نثری ادب، بچوں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے ممکنہ اقدامات، بچے اقبال اور جناح کی نظر میں، بچوں کا ادب اکیسویں عہد میں، ادبیات اطفال، تحقیق، تنقید اور بچوں کی نفسیات، ادبیات اطفال اور نصاب سازی، بیرونی ممالک میں بچوں کا ماضی، حال اور مستقبل، بچوں کے ادب کے فروغ میں رسائل کا کردار، بچوں کے عالمی ادب سے تراجم، بچوں کا ادب اور عصر حاضر، یہ وہ عنوانات تھے، جنہوں نے بچوں کے ادب کا پورا منظر نامہ پیش کیا۔
کانفرنس میں مزید دل چسپی کا عنصر پیدا کرنے کے لیے کشور ناہید، افتخار عارف، عرفان صدیقی، ڈاکٹر انیس احمد، شعیب صدیقی کی بچپن بیتی بھی شامل کی گئی تھی۔ مختلف اسکولوں سے آئے ہوئے بچوں نے اْردو ادب کے ان قدآور ادیبوں کی نہ صرف آپ بیتیاں سنیں بلکہ من پسند سوالات بھی کیے۔ کانفرنس میں بچوں کے لیے مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ بچوں کے شعرا نے اپنی دل چسپ اور خوب صورت نظموں کے ذریعے حاضرین کو خوب لْطف اندوز کیا۔ اسی طرح ’آئو بچو! سنو کہانی‘ کے عنوان کے تحت بچوں کے ادیبوں نے مزے مزے کی کہانیاں سنائیں اور بچوں سے خوب داد وصول کی۔ متنوع موضوعات اور پروگراموں کے ذریعے تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس نے حقیقتاً ادبِ اطفال کو ایک اہم سنگ میل عبور کروایا ہے۔
کانفرنس کے اختتام پر چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ’’ڈاکٹر یوسف خشک‘‘ نے بہت اہم باتیں کیں اور کانفرنس کے مقاصد کے ساتھ اس کے اہم نکات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ الحمدللہ! اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت پہلی تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بچوں کا ادب: ماضی، حال اور مستقبل اپنے اختتام کو پہنچی، مگر دراصل یہ آغاز ہے ایک مضبوط بنیاد کا۔ ہم سب ایک مضبوط، مستحکم اور خوشحال پاکستان چاہتے ہیں۔ ان تین دنوں میں ہم نے مختلف زاویوں سے بچوں کے ادب کا جائزہ لیا اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ہم جدید دور کے بچوں کے لیے ادب کو کس طرح اہم اور مفید بناسکتے ہیں۔ اْنہوں نے کہا کہ اس جدید اور پیچیدہ دنیا کو سمجھنے میں ادب زیادہ اہم ہے مگر ضرورت اس بات کی ہیکہ ادب ارتقائی مراحل طے کرے اور بچوں کے ذہنی ارتقا کو سمجھے۔ اس شعور کے ساتھ جو ادب تخلیق ہوگا وہ بچوں کے لیے دلچسپ بھی ہوگا اور اہم بھی۔ اس لیے ہم نے بچوں کے ادب میں ماضی، حال کا جائزہ لیتے ہوئے مستقبل کے امکانات پر توجہ مرکوز کی۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہورہا ہے کہ حکومت ِ پاکستان نے اس کانفرنس کی اہمیت کو سمجھا اور ہماری کاوشوں کو سراہا۔ ان تین دنوں میں ہم نے بچوں کے شعری اور نثری ادب کا جائزہ لیا اور ادب کو درپیش مسائل کو سمجھا، بچوں کے رسائل سے ادب کے امکانات کا جائزہ لیا، وطن کو مستحکم کرنے کے لیے ثقافت اور حب الوطنی کا جذیہ بچوں میں ادب کے ذریعے اجاگر کرنے پر اہم گفتگو ہوئی اور بچوں کے ادب کو درپیش مسائل اور ان کے حل کے لیے عملی تجاویز پر غور کیا گیا۔
اکادمی ادبیات پاکستان نے بے شمار کانفرنسیں اور سمینار منعقد کیے ہیں مگر بچوں کے ادب کی یہ کانفرنس اس لحاظ سے اپنی نوعیت کے اعتبار سے منفرد اور اہم کانفرنس تھی کہ اس میں سامعین بچے بھی تھے۔ اس طرح ہم نے انہیں ان کے اہم ہونے کا احساس دلایا اور اپنا پیغام بھی ان تک پہنچایا کہ بچوں کا ادب پڑھنا ان کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم نے بچوں کے ادیبوں، شاعروں کو بھی احساس دلایا کہ وہ ہمارے لیے بہت اہم اور قابلِ احترام ہیں کیوں کہ وہ ہمارا ہراول دستہ ہیں جس کی مدد سے ہم علمی، فکری، ذہنی اور عملی تربیت کرکے بچوں کو کارآمد شخصیت بنا سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر انجینئرامیر مقام مشیر برائیوزیر اعظم پاکستان برائے قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے بچوں کے ادیبوں کے لیے دو اہم وعدے کیے۔ پہلا وعدہ یہ کیا کہ اس طرح کی کانفرنس ہر سال منعقد ہوگی۔ دوسرا یہ کہ بچوں کے ادیبوں کو بھی قومی سطح پر ایوارڈ دیے جائیں گے۔ اْمید تو ہے کہ یہ وعدے وفا ہوں گے۔