رجیم چینج کا منصوبہ اسلامی تحریکیں اور اسرائیل

709

جدید دنیا میں یورپ اور امریکا میں جمہوریت اور جمہوری ادارے مضبوط جبکہ افریقی اور ایشیائی ممالک میں جمہوریت اور جمہوری ادارے قدرے کمزور ہیں اور اکثر ممالک میں بادہشاہتیں قائم ہیں، مغربی استعمار نے اپنی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ترقی پزیر ممالک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کو پنپنے نہیں دیا، مغرب نے اپنے لیے تو جمہوریت پسند کی اور ترقی کی منازل طے کیں مگر دیگر ممالک کو اپنا باج گزار بنانے کے لیے وہاں جمہوریت کی راہ میں رکاوٹیں ڈالیں، ترقی پزیر ممالک کے عوام اور اہل دانش کے لیے یہ بڑا سوال تھا کہ وہ پوچھتے کہ امریکا بہادر اپنے لیے تو جمہوریت پسند کررہا ہے مگر باقیوں کے لیے آمریت ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال اگر ترقی پزیر ممالک کے اہل دانش اٹھاتے تو یقینا اس کا جواب تلاش کرلیتے، اپنی قوم کی رہنمائی بھی کرتے اور آج وہ بھی ترقی یافتہ ممالک میں شمار کیے جاتے۔ ان ممالک کے عوام بھی بنیادی انسانی سہولتوں سے استفادہ کرتے اور ترقی کی دوڑ میں آگے نکلتے۔
مغرب کے اہل دانش نے طویل غورو خوض کے بعد اپنی قیادت اور اپنے اشرافیہ کو گائڈ لائن دی کہ اگر دنیا پر طویل عرصے تک حکمرانی کرنا چاہتے ہوتو ترقی پزیر ممالک کے عوام اور حکمرانوں کے در میان خلیج حائل رکھنا ان ممالک میں جمہوریت کو سر اٹھانے کا موقع نہ دینا۔ اگر ترقی پزیر ممالک کے حکمران اور عوام ایک پیج پر آگئے تو دنیا پر حکمرانی کا مغربی خواب دم توڑ جائے گا۔ مغرب دنیا پر اپنی حکمرانی کو طول دینے کے لیے اپنے سارے وسائل صرف کررہا ہے کہ ترقی پزیر ممالک جمہوریت کی افادیت سے آشنا نہ ہوجائیں۔ مغرب نے کمال حکمت کے ساتھ ترقی پزیر ممالک کی اشرافیہ کو اپنے قریب کیا اور ان کو باور کرایا کہ اگر وہ مغرب کے آلہ کار نہیں بنیں گے تو کبھی بھی اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتے یا جہاں جہاں ان کی بادشاہتیں قائم ہیں ان کی بادشاہتوں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ تب سے یہ اشرافیہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر انسانوں کو غلام بنائے ہوئے ہے۔
رجیم چینج کا نعرہ امریکا نے لگایا یقینا اس کے پیچھے پورا منصوبہ ہوگا، امریکا مغرب کا سرپرست ہے، امریکی اہل دانش نے یہ محسوس کیاکہ ایک عرصہ بیت گیا جو کام مغرب کو اشرافیہ سے لینا تھا وہ لے لیا اور اب رجیم چینج کرتے ہیں تاکہ نئے مہرے امریکا کے لیے خدمات سرانجام دیں۔ امریکا نے رجیم چینج کرنے منصوبے کا آغاز مشرق وسطیٰ سے کیا، مشرقی وسطیٰ میں ایک طویل عرصے سے بادشاہتیں قائم ہیں، جن سے امریکا نے خوب استفادہ کیا، اب ان کو بدلنے کا فیصلہ کیا، مشرقی وسطیٰ میں طویل عرصے سے اخوان کام کررہی ہے، جو عوام کے لیے اسلام اور جمہوریت کو پسندکرتی ہے، مشرق وسطیٰ میں اخوان ایک مضبوط قوت ہے، امریکا نے جب مصر شام اور دیگر ممالک میں رجیم چینج کرنے کا عمل شروع کیا تو تو عوام کی ایک بڑی تعداد اخوان المسلمون کی طرف چلی گئی جن کا پہلے سے ہوم ورک موجود تھا، عرب بہار کے نام سے ایک طوفان تھا جو پورے مشرق وسطیٰ کو اپنے لپیٹ میں لیے ہوئے تھا۔
امریکا نے جب دیکھا کہ حالات اس کے کنٹرول سے باہر ہورہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمون رائے عامہ منظم کرکے عرب بہار لے آئی ہے اگر یہ کامیاب ہوگئی تو پورا مشرق وسطیٰ جو تیل اور سونے کی دولت سے مالامال ہے اور یہاں کے فوج اور عوام ایک مضبوط طاقت بن کر ابھریں گے، جمہوری انداز سے یہ تبدیلی آئے گی جس کی مخالفت کا کوئی جواز بھی نہیں ہوگا، یہ خطے ترقی کریںگے اور امریکا کی غلامی سے آزاد ہوجائیںگے، امریکا نے اپنا منصوبہ تبدیل کیا، بادشاہتوں ہی سے رابطہ رکھنا ضروری خیال کیا۔
امریکا نہیں چاہتا کہ دنیا میں اسلامی تحریکیں اقتدار میں آئیں اور اسلام کے آفاقی نظام کو قائم کریں جس کی دنیا تلاش میں ہے، اس وقت انسانوں کے بنائے ہوئے سارے نظام فیل ہوچکے ہیں اور دنیا ایک متبادل نظام کی تلاش میں ہے اور وہ متبادل نظام اسلام کی صورت میں مسلمانوںکے پاس ہے۔ اگر اسلامی ممالک میںسے کسی ایک ملک میںبھی اسلام اپنی پوری روح کے ساتھ نافذ اور قائم ہوگیا تو دنیا میں سلیم الفطرت انسان اس کے انفرادی اور اجتماعی نظام عدل کو دیکھ خودبخود مسلمان ہوجائیںگے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے جو نظام بنا کردیا ہے وہی نافذ اور قائم ہوگا تو دنیا امن کا گہوارہ بنے گی اور انسانیت کو سکون میسر آئے گا۔ امریکا اس نظام سے ڈر رہا ہے حالانکہ یہ سب انسانوںکی بھلائی کے لیے ہے۔ امریکا کو اسلام سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان میں رجیم چینج کے حوالے سے جو باتیں کی جارہی ہیں، ان کی حیثیت مشرقی وسطیٰ کے حالات سے مختلف ہیں، پاکستان ایٹمی ملک ہے اسلامی اور مغربی دنیا میں اس کی اہمیت ہے، پاکستان کی فوج دنیا کی تیز ترین فوج ہے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، 22کروڑ عوام ہیں جو وژن رکھتے ہیں۔ یہاں کے حالات اور مشرق وسطیٰ کے حالات میں مماثلت بھی نہیں ہے۔ یہاں لوگ آزاد ہیں جہاں چاہیں مظاہرہ کرتے ہیں اظہار رائے کی آزادی ہے لوگ کھل کر تنقید کرتے ہیں۔
پاکستان اسلامی ممالک میں وہ واحد ملک ہے جو کانٹے کی طرح مغرب کی آنکھ میں کھٹک رہا ہے، اس لیے پاکستان کے خلاف اسرائیل، ہندوستان امریکا کی پرسرستی میں وارکرتے ہیں مگر ان کی دال نہیں گھلتی۔ پاکستان مظلوم کشمیریوں اور فلسطینیوں کا پشتیبان ہے۔ پاکستان نے صرف کشمیریوں اور فلسطینیوں کے لیے دنیا بھر آواز بلند کرتا ہے بلکہ دنیا کے دیگر مظلوموں کے لیے بھی امید ہے۔
پاکستان میں حکومت کی تبدیلی جمہوری عمل سے ہوئی، پارلیمنٹ میں عدم اعتماد آئی اور وزیراعظم پر عدم اعتماد ہوا اور نئے وزیر اعظم آئے یہ جمہوریت کا حسن ہے۔ اگرچہ عمران خان اس کو رجیم چینج ہی کا تسلسل کہتے ہیں مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔
پاکستان اور اسلامی ممالک کے عوام اور اہل دانش کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنے ملک وملت کی بہتری چاہتے ہیں، تو اسلام کی طرف لوٹ آئیں، قرآن وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں، ملائشیا کے عوام نے فیصلہ دے دیا ہے قطر کی حکومت نے بھی جس انداز سے فیفا میں اسلامی اسکالرز کو دعوت دی تاکہ وہ فیفا میں شرکت کرنے والوں تک دین کی دعوت پہنچائیں یہ تازہ ہوا کے جھونکے ہیں۔
ملت اسلامیہ بیدار ہورہی ہے اور یہی وقت ہے بیداری کا اسلامی تحریکیں اپنے اپنے انداز سے فعال اور متحرک ہیں۔ عوام ان پر عتماد کررہے ہیں۔ یہ تحریکیں ملت کو مغرب کی غلامی سے نجات اور امت کو عروج پر لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔