تعیناتی کی جنگ

466

نومبر 2022 میں اختتام کو پہنچنے والاآرمی چیف کی تعیناتی کا سفراس نظام کے بانجھ پن کی علامت ہے۔ افواہ کا وہ بھاری پتھر جس سے سچائی ٹھوکریں کھاتی بے سمت ہو جاتی ہے اس نظام کا حاصل ہے۔ ایک ریاستی اہلکار کی تعیناتی اس پتنگے کی مانند ہونی چا ہیے تھی جو پاس سے آواز نکالتا گزرجاتا ہے، جو اخبار کے آخری صفحے کی ایک کالمی خبر ہونی چاہیے تھی لیکن ایک برس سے اس تعیناتی نے 23کروڑ عوام کو اس مُعلّقہ عورت کی طرح رکھا ہوا تھا جسے نہ شوہر طلاق دے اور نہ اس سے تعلق رکھے۔ عوام اس ملک میں ویسے تو کبھی بھی اہم نہیں رہے لیکن اس دورانیے میں انہیں جس شدت سے نظرانداز کیا گیا، بے توقیر رکھا گیا ایسا صرف حالت جنگ ہی میں ممکن ہے۔ ویسے یہ حکمران طبقے کی جنگ ہی تھی جس میں عوام اس مال غنیمت کی طرح تھے جن کے بارے میں فیصلہ نہیں ہورہا تھا کہ انہیں کس کے حوالے کیا جائے۔
اس جنگ میں ریاست پاکستان بھی کسی گوشہ گمنامی میں چلی گئی تھی جس کا ایٹمی طاقت ہونا اور اس کے ایٹمی ہتھیاروں کا غیر محفوظ ہونا مغرب کے پروپیگنڈے میں پہلو بہ پہلو چلتے ہیں، اس عنوان کے ساتھ کہ دہشت گرد جس تک کسی بھی وقت رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔ مغرب نے ہم سے اور ہمارے ایٹمی پروگرام سے اپنی نفرت کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی، انتہائی منظم اور موثر انداز میں ان کی حکومتیں، سیاست دان، محققین اور صحافی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جب وہ ہمارے ایٹمی پروگرام کو محدود اور برباد کرنے کی طرف دنیا کا رخ موڑنے کی کوشش نہ کرتے ہوں۔ ایک تعیناتی پر ایک سال سے اس ملک میں جوغیر یقینی اور انتشار پھیلا ہوا تھا وہ دنیا کو کیا پیغام دے رہا تھا سوائے اس کے کہ اس ریاست کو ایک ناکام ریاست کے علاوہ کیا نام دیا جائے جو تمام قواعد وضوابط موجود ہونے کے باوجود معمول کے مطا بق ایک تعیناتی نہیں کرسکتی۔
جمعرات 24نومبر کو چمک دار، سخت گیر اور روشن آنکھیں رکھنے والے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی پر صدر عارف علوی کے دستخط سے وہ جنگ اختتام کو پہنچی جس سے اس ملک اور نظام میں کوئی تبدیلی آنے والی نہیں۔ اس جنگ میں ایک بات نمایاں رہی وہ یہ کہ اس ملک میں عوام کا کوئی نہیں۔ جنرل عاصم منیر عمران خان کے لیے ناقابل قبول تھے۔ انہوں نے اس سمری سے کھیلنے کا اعلان کیا تھا جس میں جنرل منیر انتخاب کیے گئے ہوں۔ کبھی میرٹ، کبھی سنیارٹی کو اہم قرار دیتے عمران خان اس تعیناتی کو بہر صورت متنازع بنانا چاہتے تھے۔ عمران خان نے بطور وزیراعظم جنرل عاصم منیر کو ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹا یا تھا اور انہیں اپنی ٹرم پوری نہیں کرنے دی تھی۔ عمران خان سمجھتے تھے کہ جنرل عاصم منیر اس عمل کو بھولے نہیں ہوں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جب اپنے اتحادیوں کو اعتماد میں لے کر کابینہ کی منظوری کے بعد صدر عارف علوی کو سمری بھیجی تو انہوں نے دستخط کرنے سے پہلے اسی بنا پر عمران خان سے رابطہ کرنا ضروری سمجھا کیونکہ عمران خان کی ہدایت کے مطابق صدر عارف علوی کی ان سے مشاورت ضروری تھی۔ ملاقات میں عمران خان کا اصرار تھا کہ صدر علوی جنرل عاصم منیر والی سمری پر دستخط نہ کریں اور کوئی اعتراض لگا کر اسے عدالت عظمیٰ بھیجنے کی کوشش کریں تاکہ اس سے کھیلا جاسکے جب کہ جنرل ساحر شمشاد والی سمری منظور کر لیں۔ یہی وجہ تھی کہ فواد چودھری نے کہا تھا کہ ایوان صدر سے اس بارے میں شام کو اعلامیہ جاری کیا جائے گا۔ صدر علوی اگر عمران خان کی تجویز پر عمل کرتے تو یہ مسئلہ پندرہ بیس دن کے لیے مزید لٹک جاتا اور پاکستان دنیا میں مزید تماشا بن جاتا لیکن صدر علوی نے اس تجویز کے برعکس ایوان صدر آتے ہی سمری پر دستخط کردیے۔ صدر کے دستخط کرنے کی ایک وجہ آئین کی متعلقہ شق 243 ہے جس میں لفظ shall کی موجودگی صدر مملکت کو دستخط کرنے کی پابند کرتی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس مرحلے پر چودھری پرویز الٰہی کی ٹیلی فونک مداخلت نے بھی عمران خان کے کھیلنے کے تصورکو غیر موثر کرنے میں بہت کام دکھایا۔ جنہوں نے عمران خان کو سمجھایا کہ سمری کا روکنا ہمارے لیے تباہ کن ہوگا۔ ایک بات طے ہے کہ عمران خان اتنی جلدی سمری پر دستخط ہوتے دیکھنا نہیں چاہتے تھے وہ اس معاملے کو طول دینا چاہتے تھے۔
صدر مملکت عارف علوی کے زمان پارک جاکر عمران خان سے ملاقات کو ایک غلط اور غیر قانونی عمل سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مشاورت کرکے اپنے حلف اور آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس معاملے میں مشاورت صدر کا کردار ہی نہیں ہے۔ ان کا کردار محض اور محض دستخط کرنے تک محدود ہے۔ یہ صدر کے عہدے کے وقار کے منافی ہے کہ وہ فدویانہ انداز میں ایک ورکر کی طرح مشاورت کرنے کے لیے ایک ایسے شخص کے پاس چل کر جائیں جس نے پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کررکھا ہے۔ وہ پارلیمنٹ کا رکن نہیں ہے۔ میانوالی کی سیٹ سے وہ نااہل ہے۔ گزشتہ دنوں ضمنی الیکشن میں بھی اس نے جو عظیم کامیابی حاصل کی تھی ان نشستوں سے بھی اس نے ابھی تک حلف نہیں اٹھایا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صدر عارف نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی ہے۔
اقتدارکے اندر اور باہر عمران خان نے جو انداز اختیار کیے ہیں اس کے بعد انہیں ناکام اور بے وقعت ہی ہونا تھا۔ آپ وقتی طور پر لوگوں کو بے وقوف بناسکتے ہیں مستقل نہیں۔ ان کا سائفر اور امریکی سازش کا بیانیہ اب غائب ہوکر اپنا وجود کھو بیٹھا ہے۔ سائفر کے معاملے میں وہ عدالتی کمیشن بنوانا چا ہتے تھے اس مطالبے کو بھی مستردکردیا گیا۔ وہ قبل ازوقت انتخاب کا انعقاد چاہتے تھے اپنی تمام تر لسانی طاقت کھپانے اور پچھلے چھے ماہ میں ساٹھ سے زائد جلسے کرنے کے باوجود اس معاملے میں بھی ابھی تک ان کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ 25مئی کے دھرنے میں انہوں نے بیس لاکھ لوگ اکٹھے کرنے کا دعویٰ کیا تھا ان کا یہ ہدف بھی ایک مذاق کی صورت اختیا ر کر گیا۔ بیس لاکھ تو درکنار وہ ایک لاکھ لوگ بھی اکٹھے نہیں کرسکے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود وہ آج تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کا پھٹا ہوا صفحہ دوبارہ نہ جوڑ سکے۔ منافقت اور دوغلے پن کی گہرائیوں میں سفر کرنے، جلسوں میں میر جعفر، میر صادق اور جانور کہنے اور رات کی تاریکی میں ہاتھ پائوں جوڑنے کے باوجود ان تعلقات کے حوالے سے وہ آج بھی ایک ٹھکرائے ہوئے شخص ہیں۔ اکثریت رکھنے کے باوجود وہ پنجاب میں اپنا وزیراعلیٰ لانے میں بھی کامیاب نہ ہوسکے اور پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو آج ان کا وزیراعلیٰ ہے۔ توشہ خانہ کیس، ممنوع فنڈنگ کیس کا فیصلہ رکوانے کے لیے انہوں نے گالم گلوچ کا کون سا ہتھیار استعمال نہیں کیا لیکن فیصلہ نہیں رکوا سکے۔ اپنی مرضی کا ڈی جی آئی ایس آئی اور اب آرمی چیف لانے کے معاملے میں بھی انہیں ذلت اور رسوائی کے علاوہ کچھ نہ مل سکا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ نواز شریف کی سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے لیکن محض چار سوا چار سال بعد ہی نواز شریف اس طاقت کے ساتھ سامنے آئے ہیں کہ آرمی چیف نامزد کررہے ہیں، آرمی چیف ان کی مرضی کا آرہا ہے جب کہ وہ تمام تر ڈرامے بازی کے باوجود مرضی کی ایف آئی آر کٹوانے میں بھی ناکام ہیں۔