نیتن یاھو اور مذہبی صیہونیت کے درمیان اختلافات نئی اسرائیلی حکومت کے قیام میں تاخیر کا سبب

385
نیتن یاھو اور مذہبی صیہونیت کے درمیان اختلافات نئی اسرائیلی حکومت کے قیام میں تاخیر کا سبب

تل ابیب :اسرائیل کے نامزد وزیراعظم نیتن یاھو کی زیر قیادت قدامت پسند لیکود پارٹی نے جمعہ کو اعلان کیا ہے کہ اس نے انتہائی دائیں بازو کی یہودی پاورپارٹی کے ساتھ اپنے پہلے اتحادی معاہدے پر دستخط کر دئیے ۔

یہ معاہدہ اسرائیل میں ایک مکمل اور حتمی نئی حکومت کی تشکیل کی نمائندگی نہیں کر رہا تاہم انتہائی قوم پرست ایتمار بین گویر کو پولیس کی وزارت اور سکیورٹی کابینہ میں ایک سیٹ دینے کی نشاندہی کر رہا ہے۔

یکم نومبر کے الیکشن میں دائیں بازو نے واضح اکثریت حاصل کرکے چار سال سے جاری سیاسی تعطل کا خاتمہ کیا ہے۔ اس کے بعد لیکود پارٹی کے اندر مذہبی قوم پرست جماعتوں کے ساتھ جلد اتحاد کرنے کی توقعات بڑھ گئی ہیں۔لیکن لیکود اور طاقتور “مذہبی صیہونی” پارٹی کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔

مذہبی صہیونی پارٹی کے سخت گیر رہنما فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور مقبوضہ مغربی کنارے کے الحاق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ان کا یہ مطالبہ امریکی انتظامیہ کی ہدایات سے براہ راست متصادم ہیں۔

مذہبی صہیونی قانون ساز پارٹی کے رہنما سموٹریچ کو وزیر دفاع بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ پارٹی مغربی کنارے سے متعلق پالیسی پر اثر انداز ہو سکے۔

یاد رہے مغربی کنارے کا نصف سے زیادہ حصہ پہلے ہی اسرائیلی فوج کے مکمل کنٹرول میں ہے جبکہ فلسطینی مغربی کنارے کو اپنی مستقبل کی ریاست کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ لیکود پارٹی بھی وزارت دفاع کو اپنے پاس برقرار رکھنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔اسی طرح وزارت خزانہ کا عہدہ بھی نیتن یاہو کے لیے مسائل پیدا کرے گا۔

یاھو نے انتخابات سے قبل کہا تھا کہ لیکود پارٹی تین بڑے محکموں کو اپنے پاس رکھے گی۔ ان تین محکموں میں دفاع، مالیات اور امور خارجہ شامل تھے۔”مذہبی صیہونی” پارٹی کے زیر قبضہ محکموں سے قطع نظر اگلی حکومت اسرائیل کی تاریخ میں بظاہر سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت ثابت ہوگی۔

ظاہر ہے اس حکومت میں نیتن یاھو پر اپنی اتحادی جماعتوں اور مغربی اتحادیوں کے درمیان سفارتی توازن برقرار رکھنے کا زبردست دبا برقرار رہے گا۔