بچوں کے اقبال

615

نظم ’’بچے کی دعا‘‘
لب پہ آتی ہے دْعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری!
دور دنیا کا مرے دم سے اندھیرا ہو جائے!
ہر جگہ میرے چمکنے سے اُجالا ہو جائے!
ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
زندگی ہو مری پروانے کی صورت یا رب!
علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب!
ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درمندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
مرے اللہ! بْرائی سے بچانا مجھ کو
نیک جو راہ ہو اُس رہ پہ چلانا مجھ کو

یہ خوبصورت دعا ہمارے قومی شاعر، مفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے آج سے تقریباً ایک صدی پہلے بچوں کے لیے لکھی۔ جس میں ایک اچھے، محب وطن، مخلص، علم کی محبت سے سرشار، اندھیروں میں چراغ، ایماندار، نیک، صالح اور درد مند انسان بنانے کی آسان شاعری میں دعا سکھائی گئی۔ جسے ہم بچوں نے اپنے بچپن میں خوب لہک لہک کر پڑھا ہے۔

علامہ اقبال 9/نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ آپ بچپن ہی سے نہایت ذہین اور سمجھدار تھے۔ آپ کو قرآن پاک کی تلاوت کا شوق تھا۔ صبح سویرے بلاناغہ قرآن پاک کی تلاوت کیاکرتے تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد مسلمانوں کی اصلاح اور ان کے سوئے ہوئے جذبہ آزادی کو بیدار کرنا تھا۔ علامہ اقبال کو بچوں سے بڑی محبت تھی۔ وہ جانتے تھے کہ آج کے بچے ہی کل کے معمار ہیں اس لیے سب سے اہم ہے کہ ان کی بہتر انداز میں تعلیم و تربیت کی جائے اور انہیں زیور تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ علامہ اقبال نے بچوں میں اچھی اچھی عادتیں پیدا کرنے اور ان کی بہتر تربیت کے لیے نہایت دلچسپ، پرمغز، پر تاثیر، آسان اور سبق آموز نظمیں لکھیں۔ ان کی شاعری میں بہت سی سبق آموز باتیں اور نصیحتیں بچوں کو نہایت موثر انداز میں سمجھائی گئی ہیں۔ ان میں مشہور بچے کی دعا، ہمدردی، مکڑا اور مکھی، پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری، پرندے کی فریاد، ماں کا خواب، بچہ اور جگنو، شمع اور پروانہ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تمام نظمیں ان کے مجموعہ کلام بانگ درا میں شامل ہیں۔ ان نظموں میں بچوں کے لیے خاص نصیحت ہے۔ مثلاً نظم ’’ہمدردی‘‘ کے ذریعے انہوں نے بچوں کو دوسروں سے ہمدردی اور بھلائی کرنے کا درس دیا ہے۔ ’’ماں کا خواب ہو‘‘ یا ’’بچہ اور جگنو‘‘ اْن کی تمام نظموں میں بہت سے خاص پیغام اور محبت اور ہمدردی کے طریقے، بہترین نصیحتیں پوشیدہ ہیں۔

علامہ محمد اقبال کی زیادہ تر شاعری نوجوان نسل کے لیے ہے۔ اپنی کتاب بانگ درا میں بچوں کے لیے کچھ نظمیں لکھیں۔ ان نظموں میں اقبال بچوں کو اخلاقی اقدار اور زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتے ہیں۔ اگر بچے یہ اشعار پڑھیں گے تو انہیں یقینا پسند آئیں گے، پھر وہ اقبال کے دوسرے اشعار پڑھنا چاہیں گے اقبال کی شاعری پڑھ کر وہ پرامید ہو جائیں گے، اور جب وہ پرامید ہو جائیں گے تو زندگی کے کسی میدان میں انہیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔ یہ اقبال ہی تھے جنہوں نے ہمیں پاکستان کا تصور اس وقت دیا جب لوگ نا امید تھے۔ آیئے ہم کچھ نظموں کے بارے میں پڑھیں اور اہم سبق جاننے کی کوشش کریں۔

پہاڑ اور گلہری
کوئی پہاڑ یہ کہتا تھا اک گلہری سے
تجھے ہو شرم تو پانی میں جا کے ڈوب مرے

اس نظم میں بچوں کی ذہن سازی کے بہت سے سامان ہیں کہ کس طرح پہلے ایک بہت بڑا پہاڑ ایک ننھی سی گلہری سے مخاطب ہے اور اسے اپنی شان و شوکت کے متعلق آگاہی دے رہا ہے۔ اپنے غرور میں کچھ آگے بڑھ کر گلہری کو شرم دلارہا ہے کہ کتنی حقیر سی ہے۔ لیکن اس کے جواب میں جب گلہری نے اپنی بات سمجھائی تو پہاڑ کی ساری بڑائی دھری کی دھری رہ گئی۔

ہر ایک چیز سے پیدا خدا کی قدرت ہے
کوئی بڑا کوئی چھوٹا یہ اس کی حکمت ہے
پھر آخر میں بچوں کے لیے سب سے اہم سبق پنہاں کردیا
نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں
کوئی برا نہیں قدرت کے کارخانے میں

نظم ’’مکڑا اور مکھی‘‘ میں بچوں کے لیے بہت ہی سبق آموز باتیں پوشیدہ ہیں کہ کس طرح پہلے مکڑے نے اپنے گھر کی خوبصورتی زیب و زینت کی تعریف کی کہ یہ سب میں نے مکھی صاحبہ آپ کے لیے سجائے ہیں کچھ شکوے بھی کیے۔ لیکن اس پر بھی جب مکھی پر کوئی اثر نا ہوا تو مکڑے نے خوشامد کا راستہ اپنایا تعریف سن کے مکھی باآسانی مکڑے کے پھیلائے ہوئے جال کا شکار ہوگئی۔’’مکڑا اور مکھی‘‘ کی خوبصورت داستان بیان کرکے بچوں کو بتایا گیا کہ ہمیں کس طرح اپنی عقل اور سمجھداری سے کام لے کر خوشامدی لوگوں کے مکروفریب سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نظم ’’ماں کا خواب‘‘ میں بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے اہم سبق پنہاں ہے۔

میں سوئی جو اِک شب تو دیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مِرا اِضطراب
یہ دیکھا، کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ مِلتی نہیں

اس نظم میں شاعر مشرق یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ کسی عزیز کا چلے جانا واقعی ایک بہت بڑا سانحہ ہوتا ہے۔ انسان جو اس موقع پر جذبات کے ہاتھوں مجبور ہوکر روتا ہے اور بہت روتا ہے۔ لیکن رونا اور صرف رونا ہی مقصد نہیں ہوناچاہیے۔ اس مرنے والے کے لیے ایسے اعمال بھی کرنے چاہیں کہ اس مرحوم کا دیا ہمیشہ ان نیک اعمال اور صدقات جاریہ سے روشن رہے۔

نظم ’’پرندے کی فریاد‘‘ میں علامہ اقبال نے بچوں کو آزادی اور غلامی میں واضح تفرق کی ہے۔ اس میں انہوں نے نہ صرف نشاندہی کی بلکہ آزادی جیسی نعمت کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا ہے۔

آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ باغ کی بہاریں وہ سب کا چہچہانا
آزادیاں کہاں وہ اب اپنے گھونسلے کی
اپنی خوشی سے آنا اپنی خوشی سے جانا

یہ نظم ایک ایسے پرندے کی فریاد بیان کرتی ہے جس کو شکاری نے پنجرے میں قید کر دیا۔ اب وہ اپنی تنہائی کا غم بیان کر رہا کہ کس طرح اس سے دنیا کی انمول نعمت آزادی چھن لی گئی۔ وہ گھر کے لیے ترس رہا ہے وطن اور ساتھیوں سے دوری نے اسے غمناک کر دیا۔ وہ اپنی فریاد میں قید کرنے والے شخص سے التجا کررہا ہے کہ اسے چھوڑ کر اس کی دعائیں لے لے۔ انہوں نے بچوں کو اس نظم کے ذریعے بتایا کہ غلامی کی لعنت کو انسان تو کیا، حیوان بھی پسند نہیں کرتے۔

نظم ’’گائے اور بکری‘‘ میں اقبال فرمارہے ہیں کہ اگر تم صرف شکوہ شکایات کرو گے تو تمہاری زندگی سے سکون و اطمینان رخصت ہوجائے گا۔ آدمی اگر تمہارے دودھ اور گوشت سے مستفید ہوتا ہے تو وہ تمہیں اس قدر حسین خوبصورت اور جنت نظیر وادیوں میں بھی رکھتا ہے۔ جو ہم پر احسان کرتا ہے اس پر ہمارا بھی یہ فرض ہے کہ ہم اس پر احسان کریں۔ کبھی بھی تصویر کے ایک رخ کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔

اک چراگاہ ہری بھری تھی کہیں
تھی سراپا بہار جس کی زمیں
کیا سماں اس بہار کا ہو بیاں
ہر طرف صاف ندیاں تھیں رواں

’’ایک گائے اور بکری‘‘ میں گائے کی انسان سے شکایتیں یہ تھیں کہ وہ اس کا دودھ اپنے لیے استعمال کرلیتا ہے لیکن جب بکری اس گائے کو دوسرارخ دکھاتی ہے تو گائے یہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ

یوں تو چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی

اس نظم میں اقبال یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انسان کو ہمیشہ زندگی کا روشن رخ دیکھنا چاہیے، ہمیشہ منفی رخ کو سامنے نہیں رکھنا چاہیے، کیونکہ منفی سوچ انسان کو بیمار کردیتی ہے۔

نظم ’’ہمدردی‘‘ کا مضمون مصیبت کے وقت دوسروں کے کام آنا ہے۔ اس میں اللہ کی طرف سے عطا کردہ صلاحیتوں کو دوسروں کی بھلائی کے لیے وقف کرنے کا واضح پیغام ملتا ہے۔ نظم میں ایک بلبل دن بھر اڑنے اور دانہ چگنے میں مصروف رہنے کے بعد شام کو جب اپنے گھر روانہ ہوتا ہے تو اندھیرا چھانے کے باعث واپسی کی راہ گم کر بیٹھتا ہے۔ اسی پریشانی میں وہ شاخ پر بیٹھا تھاکہ ایک جگنو اس کی اداسی کا سبب جان کر اسے اپنی خدمات پیش کر تا ہے۔

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کیڑا ہوں اگر چہ میں ذرا سا
کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری
میں راہ میں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے دیا بنایا
اس نظم کا شعر آخر ہے کہ
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

ایک صدی قبل لکھی گئی تمام نظمیں آج بھی اپنے اندر وہی تازگی، جاذبیت اور زندگی رکھتی ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے بھی معاشرے کا فعال رکن بنیں اور زندگی کی ہرشاہراہ پر کامیابی و کامرانی کا علم بلند کریں تو انہیں علامہ اقبال کی شاعری کا مطالعہ بھرپور طریقے سے کروائیں تاکہ وہ ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوں جن کا ذکر شاعر مشرق نے کیا ہے، تاکہ جب ان کے کاندھوں پر ملک و قوم کی ذمے داری عائد ہو تو وہ اس ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھا سکیں۔ ملک و قوم کا نام بلند کریں اور دین و آخرت کی کامیابی و سربلندی حاصل کرسکیں۔