برطانوی وزیراعظم لز ٹرس کے استعفے کے بعد رشی سوناک میدان میں آگئے

493

لندن :برطانوی تاریخ میں سب سے کم مدت کے لیے وزیرِاعظم رہنے کا ’اعزاز‘ اپنے نام کرنے والی وزیراعظم لزٹرس نے استعفے کا اعلان کر دیا ہے تاہم وہ نئے وزیرِاعظم کے منتخب ہونے تک اپنی ذمہ داریاں نبھائیں گی ۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ 3 برسوں میں 3 وزرائے اعظم تبدیل ہوچکے ہیں اور لزٹرس تو محض 45 دن بعد مستعفی ہوگئیں جس کے بعد نئے وزیر اعظم کے لیے امیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہوگئے۔

بھارتی نژاد رشی سوناک نے بھی وزیراعظم کے عہدے کے لیے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کا اعلان کرتے ہوئے ٹوری پارٹی کے ایم پی ٹوبیاز اِل ووڈ نے ٹویٹ کیا کہ وہ پارٹی کے 100 ویں رُکن ہیں جو رشی سوناک کی حمایت کرنے میں آگے آئے۔

کووڈ پابندیوں کی خلاف ورزی اور اسے چھپانے کی کوشش پر اقتدار سے ہاتھ دھونے والے سابق وزیراعظم بورس جانسن بھی میدان میں اترنے کو تیار ہیں جب کہ کابینہ کی خاتون رکن پینی مورڈانٹ نے بھی حصہ لینے کا اعلان کردیا۔

لز ٹرس نے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے جو تقریر کی اس میں اس بات کا عندیہ دیا گیا ہے کہ کنزرویٹو ممبران اگلے ہفتے تک نیا لیڈر چن لیں گے لیکن بظاہر یہ معاملہ اتنا آسان نہیں اور اگر نیا حکمران آ بھی جائے تو اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ حالات پر قابو پاسکے یا کم از کم اپنے اقتدار کے دن ہی پورے کرسکے۔ یہ بات قابلِ تشویش ہے کہ گزشتہ 3 وزرائے اعظم اپنا دور مکمل نہیں کرسکے اور انہیں وقت سے پہلے استعفی دینا پڑا۔

کنزرویٹو پارٹی کے ذرائع کی جانب سے سامنے آنے والی معلومات کے مطابق نئے پارٹی رہنما کا اعلان 28 اکتوبر تک کردیا جائے گا۔ پارٹی رہنما کے الیکشن میں حصہ لینے والے ممبرانِ پارلیمنٹ کو 100 دیگر پارلیمنٹ ممبران کی حمایت دکھانا ضروری ہوگی۔ اس کا مقصد غیر مقبول رہنمائوں کو پارٹی لیڈرشپ کی دوڑ سے دُور رکھنا اور اس مرحلے کو جلد از جلد مکمل کرنا ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ برطانیہ میں عموماً پارٹی لیڈر ہی وزارتِ عظمی کا امیدوار ہوتا ہے۔

دوسری طرف لیبر پارٹی کے رہنما کیئر اسٹارمر سمیت اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بورس جانسن کے جانے کے بعد بھی اور اب ایک بار پھر حکومت سے فوری طور پر ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ کیا ہے۔ گو اس وقت تک حکومت نے اس بارے میں واضح مؤقف نہیں اپنایا مگر تجزیہ کاروں کے مطابق معاشی طور پر مشکل اور ملک کی مجموعی گھمبیر صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے کنزرویٹو جلد انتخابات کی طرف نہیں جائیں گے۔ لیکن دوسری جانب یہ رائے بھی موجود ہے کہ ملک جس قسم کے سیاسی و معاشی گرداب میں پھنس چکا ہے اس سے نکلنے کا واحد حل ایک تازہ مینڈیٹ ہے۔

خیال رہے کہ 2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم میں یورپی یونین سے انخلا کے خلاف اُس وقت کے وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ دیدیا تھا جس کے بعد یہ منصب تھریسامے کے حصے میں آیا اور وہ 3 سال تک بریگزٹ ڈیل کے لیے کام کرتی رہیں لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہ سکیں اور مستعفی ہوگئیں۔

ایسے میں برطانیہ کو ایک مضبوط اور طویل المدتی حکومت کی اشد ضرورت ہے جو ملک کو ان تمام بحرانوں سے نکالنے کے لیے واضح اور مربوط حکمتِ عملی اپناتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ملک میں سیاسی استحکام کے لیے ایک جگہ بٹھا سکے اور ان تمام معاملات کو حل کرسکے۔