بلدیاتی انتخاب سے فرار

595

وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ 23 اکتوبر کو سندھ میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات تیسری مرتبہ ملتوی کردیے گئے۔ الیکشن کمیشن نے سیکورٹی فورسز کی عدم دستیابی کو جواز بناتے ہوئے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے اور پندرہ دن بعد دوبارہ اجلاس طلب کر کے انتخابات کی نئی تاریخ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا یہ اعلان سمجھ سے بالا تر ہے۔ آئین کا آرٹیکل 220 انہیں مکمل اختیارات دیتا ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج ودیگر اداروں سے مدد حاصل کرسکتے ہیں لیکن الیکشن کمشنر بجائے اس کے کہ وہ فورسز کے حصول کے لیے احکامات دیتے وہ ان سے یہ پوچھ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے لیے فورسز مل سکتی ہیں یا نہیں۔ بلاشبہ بلدیاتی انتخابات کا تیسری مرتبہ ملتوی کیے جانا اہل کراچی پر شب خون مارے جانے کے مترادف ہے۔ پیپلز پارٹی کی وڈیرہ ذہنیت کو معلوم اور یقین ہوگیا ہے کہ کراچی میں جماعت اسلامی بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے والی ہے تو اس نے الیکشن کمیشن سے ساز باز کر کے الیکشن ملتوی کرنے کا ڈراما رچایا۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی منتخب ہوگئے تو پھر لوٹ مار کے سارے دھندے اوپر کی کمائی بند اورکرپشن کے تمام اڈے بند ہوجائیں گے۔
گزشتہ 14سال میں پانچ ہزار ارب روپے پیپلز پارٹی ڈکار چکی ہے اور اب بھی ان کا پیٹ نہیں بھرا ہے اور اہل کراچی کو ان کے آئینی، جمہوری اور قانونی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ کراچی جیسے اہم شہر کے ساتھ یہ بے حسی اور ظالمانہ وجابرانہ رویہ سنگین غلطی کے مترادف ہے جس سے نفرت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوسکتا۔ پیپلز پارٹی نے اندرون سندھ کے غریب ہاریوں، کسانوں کو اپنا غلام سمجھا ہوا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ کراچی کے لوگوں کو بھی اسی طرح ڈیل کر کے انہیں اپنا غلام بنا لیں گے لیکن یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی قیادت جمہوریت کی نرسری کا گلا گھونٹ کر جس ڈکٹیٹر شب کا مظاہرہ کر رہی ہے وہ قابل افسوس ہے۔ جمہوریت کا لاگ الاپنے والی پیپلز پارٹی نے جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے الیکشن کمیشن کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ گھنائونا کام کیا ہے۔ دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ گورنر شپ پر جو ہاتھ ہوا ہے وہ بڑے تلملائے پھر رہے ہیں اور مجبور اتنے ہیں کہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے اور اب کراچی کے ایڈمنسٹر کے لیے ہاتھ پائوں مار رہے ہیں اس سلسلے میں خالد مقبول صدیقی نے شہباز شریف سے بھی بات کی ہے اور انہیں ان کے مطالبات تسلیم کیے جانے کے بارے میں یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ بہرحال ان سب باتوں سے ثابت ہوگیا ہے کہ کراچی اور اہل کراچی کا کوئی خیر خواہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف ہو یا پیپلز پارٹی، متحدہ یا مسلم لیگ سب ایک حمام ننگے ہیں اور انہیں کراچی کا کوئی درد نہیں ہے، سب کراچی کو نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور سندھ کے وڈیروں کو یہ بات کسی بھی قیمت پر قبول نہیں کہ کراچی ترقی کی جانب گامزن ہو اور ان کی مٹھی سے نکلے۔
کراچی کی روز بروز بگڑتی ہوئی حالت یہاں کے باسیوں کے لیے اب ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے اور کراچی کے رہائشیوں کا سانس لینا بھی مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ جمہوریت پر ڈاکا ڈال کر اور بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر کے پیپلز پارٹی کی حکومت نے کراچی دشمنی میں انتہا کردی ہے۔ انہیں یقین ہوگیا تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی کے لیے فضا بنی ہوئی ہے اور کسی اور پارٹی کے لیے انتخاب جیتنا ممکن نہیں ہے اور متحدہ پیپلز پارٹی دونوں کی ملی بھگت سے الیکشن سے فرار کا راستہ اختیار کیا گیا اور گھنائونا کھیل کھیل کر بلدیاتی اداروں کو بے اختیار بنا دیا گیا جس کی وجہ سے نفرت کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور اس کا پورا فائدہ لسانی قوتوں کو پہنچ رہا ہے اور لسانی سیاست کو تقویت مل رہی ہے۔
بلدیاتی انتخابات ملتوی کیے جانے کے وفاق اور صوبہ دونوں ذمے دار ہیں۔ الیکشن کمیشن بے بس اور لاچار ہے اور الیکشن کمشنر اپنا آئینی کردار ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے انہیں آئین نے اختیار دیا ہے کہ وہ پاک فوج یا ریاست کے کسی بھی ادارے کو الیکشن کے لیے استعمال کر سکتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن تو خود سندھ حکومت کا سہولت کر بن گیا ہے لہٰذا الیکشن کمشنر کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ کراچی میں مردم شماری کرانے کو بھی حکومت تیار نہیں ہے اور کراچی کا ہر سطح پر استحصال کیا جارہا ہے۔ انہیں اپنی دوکانیں بند ہوتی نظر آرہی ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ان کی کرپشن اور لوٹ مار کا حساب لیا جائے گا۔ جماعت اسلامی نے ماہ جون سے بلدیاتی انتخابات کے لیے زبردست مہم چلائی اس کے کارکن گھر گھر پہنچے اور جماعت اسلامی کا پیغام پہنچایا گیا۔ اہل کراچی کو بھی اپنے اچھے اور برے کی تمیز ہوگئی ہے اور وہ جماعت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں، جماعت اسلامی کی مقبولیت میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے یہ ہتھکنڈے انہیں بند گلی کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور حکومتی اہلکاروں، وزراء نے متاثرین سیلاب کے ساتھ جو لوٹ مار اور ظلم ڈھایا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی کے اپنے علاقوں لاڑکانہ، سکھر، دادو، جھڈو کے مکین آج بھی بے آسرا کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہیں۔ الخدمت بھی وہاں ان کی مدد کو پہنچی ہے وہ الخدمت نے ٹینٹ سٹی، الخدمت فلڈ اسپتال قائم کیا ہے۔ اور ان متاثرین کو تین وقت کھانا، ادویات، ملبوسات ودیگر اشیاء خورو نوش فراہم کی جا رہی ہیں لیکن سندھ حکومت کی عدم توجہ کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے اور حکومتی سطح کے کرنے کے کام نہیں کیے گئے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ پیپلز پارٹی سے نالاں ہیں۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بجائے اس کے کہ وہ متاثرین سیلاب کی عملی مدد کرتی اور ان کی بحالی کے لیے برق رفتاری سے کام کیا جاتا وہ جماعت اسلامی کا راستہ روکنے کے لیے غیر جمہوری اقدامات میں مصروف ہے۔ اندرون سندھ سیلابی پانی سے بدبو اور تعفن اٹھ رہا ہے موذی امراض پیدا ہورہے ہیں۔ لوگ شدید پریشان اور مشکلات کا شکار ہیں لیکن سندھ حکومت کو کوئی ہوش نہیں ہے اور وہ غیر جمہوری ہتھکنڈے اختیار کر کے جمہوریت کی نرسری کو اپنے ہاتھوں سے دفن کر رہی ہے۔