!!تو پھر سسٹم کی بات نہ کریں

631

پاکستان بنائے جانے کا صرف ایک ہی مقصد تھا اور اسی مقصد کی خاطر اس وقت کے ہندوستان میں رہنے والے مسلمانوں نے وہ بے مثال قربانیاں دی تھیں جس کی تاریخ شاید ہی دہرائی جا سکے۔ یہی نہیں کہ تقسیم کے وقت کس بیدردی سے مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا بلکہ انگریزوں کے ہندوستان پر قبضے کے بعد ہی سے قربانیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا تاکہ برِصغیر پر دوبارہ سے اسلامی حکومت قائم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے گئے پیغام (قرآن) کو پھر سے نافذ کیا جاسکے۔ دو ڈھائی سالہ جدو جہد کے بعد 1940 میں ایک ایسے خطہ زمین کی شکل و صورت ابھرتی دکھائی دینے لگی جہاں خدا اور اس کے رسول کے نظام کو نافذ کیا جا سکتا تھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک ایسی بات جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آ سکتی تھی، حقیقت کا روپ دھار گئی اور ایک نیا اور منفرد ملک وجود میں آ گیا جو بہر لحاظ اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا۔ طمانیت کی بات یہ تھی کہ اس خطہ زمین میں بہت واضح اکثریت مسلمانوں کی تھی لہٰذا سب کو یہ اطمینان تھا کہ یہاں بنا کسی دقت اسلامی نظام رائج ہو جائے گا۔ مذہبی اعتبار سے گو کہ تقریباً تمام آبادی مسلمانوں ہی کی تھی لیکن اُس وقت کے لحاظ سے ان میں دو اور آج کل کے لحاظ سے کم از کم پانچ بڑی تہذیبیں آباد تھیں۔ پاکستان کے مغربی خطے میں چار بڑی تہذیبیں موجود تھیں جبکہ مشرقی خطہ بنگلا تہذیب کا گہوارہ تھا۔ پاکستان پوری دنیا میں بڑے فخر کے ساتھ یہ بات کہتا تھا کہ دوبڑی تہذیبوں کے درمیان ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلہ ہونے کے باوجود یہ دونوں خطے اسلام کے بندھن سے بڑی مضبوطی کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں جو اس بات کی دلیل ہے کہ ملتِ اسلامیہ رنگ، نسل اور زبان کی قیود سے آزاد ہے اور اس میں عجمی اور عربی میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں۔
پاکستان بنا تو اسلام کے نام پر تھا لیکن تقریباً 25 برس کے بعد اس کی تقسیم کا سبب ’’تہذیبیں‘‘ بن گئیں اور یوں حقیقت میں پاکستان عملاً اپنا وجود کھو بیٹھا۔ اسلام کے نام پر بنائے جانے والے اس ملک میں آج 75 برس گزرنے کے باوجود بھی ایک لمحے کے لیے اسلام نافذ نہیں کیا جا سکا البتہ آج تک پاکستانیوں سے اسلام کے نام پر ہی قربانیاں مانگی جاتی رہی ہیں۔ اگر دیانتدارانہ انداز میں جائزہ لیا جائے تو پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کی طرح ایک ’’ملک‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں باقی جتنے دعوے یا نعرے ہیں وہ سب جھوٹ، مکر اور فریب ہیں۔ جس طرح دنیا کے سیکڑوں ممالک میں زندگی کا چکر رواں دواں رکھنے کے لیے ہر قوم نے اپنے اپنے آئین و قوانین بنا لیے ہیں، پاکستان میں بھی ایک دستور بنالیا گیا ہے۔ اس دستور کا اسلامی احکامات سے کہیں سے کہیں تک کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی ملک کے ایک ایک فرد کے دل میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ موجودہ 1973 کا آئین عین اسلامی ہے اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا کفر اور غداری ہے۔
یہ اسی طرح کا معاملہ ہے کہ ایک خطہ زمین محض اس لیے حاصل کیا جائے کہ اس پر مسجد بنانی ہے، خطہ زمین مل جانے کے بعد اس پر جو عمارت تعمیر کی گئی وہ مسجد ہی ہو لیکن یا تو وہ ’’مسجد ِ ضرار‘‘ ہو یا پھر اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بجائے ہر قسم کا حرام کاروبار چلتا ہو۔ وہ تمام سچے مسلمان جو اس بات سے بخوبی واقف تھے اور ہیں کہ یہاں مسجد تو ضرور بن گئی ہے لیکن جن مقاصد کے لیے مسجد کو استعمال میں لانا تھا وہاں ان میں سے کوئی کام بھی نہیں ہو رہا بلکہ سارے کام کفر و شرک کے سرانجام دیے جا رہے ہیں لہٰذا ہمیں اس مسجد کو مسجد ِ ضرار کی طرح ڈھا دینا چاہیے۔ جب جب بھی ایسی تحریکیں پاکستان میں چلائی گئیں تب تب یہ شور بلند ہوا کہ اللہ کے نام پر بنائی گئی مسجد کو ڈھانا اسلام سے انحراف ہے اور ایسا کرنے والے اس لائق ہیں کہ ان کے سر تنوں سے جدا کر دیے جائیں۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے جس دیس میں نہ تو انصاف ہے، نہ ہی جان و مال کا تحفظ حاصل ہے، نہ ہی سزائیں اسلامی ہیں، نہ بینک کا نظام سود سے پاک ہے، نہ یہاں خلافت قائم ہے، نہ یہاں کے چینل کہیں سے بھی اسلامی لگتے ہیں، نہ یہاں ڈرامے اور فلمیں مسلمانوں کی شان و شوکت کا مظہر ہیں اور نہ ہی یہاں کے بازاروں میں ناپ تول اور خرید و فروخت کرنے والے بے ایمانی اور بے جا منافع خوری سے باز آتے ہیں۔ اس پر ستم بالائے ستم یہ کہ جتنے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں وہ خود چور، ڈاکوؤں اور بھتا خوروں پر مشتمل ہیں تو ایسا ملک محض ’’ملک‘‘ ہی ہوا۔ جب پاکستان بھی نیپال، بھوٹان، سری لنکا، ہندوستان، چین اور بنگلا دیش کی طرح کا ایک ملک ہی ہوا تو ایک اور کفریہ بل کا اضافہ اس کی شکل و صورت کے چاند کو کون سا گہن لگا دے گا۔ جب بڑی چھوٹی دینی و سیاسی جماعتیں علی الاعلان اس بات کی اقراری ہوں کہ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے ’’سسٹم‘‘ میں رہتے ہوئے ہی کرنا ہے تو پھر سسٹم تو یہی کہتا ہے کہ جو ’’کثرت‘‘ کہے وہی بات حق ہے۔بہت سیدھی سی بات ہے کہ ہر مسلمان کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ’’سسٹم‘‘ یعنی نظام وہی ہے جس کو اللہ نے بھیجا ہے۔ اس کے علاوہ سارے نظام نظامِ کفر ہیں۔ اگر لوگ خالص ہیں تو پھر ’’سسٹم‘‘ کی بات نہ کریں بلکہ وہ کریں جو اللہ کہتا ہے۔ ایسا کرسکتے ہیں تو ٹھیک ورنہ پاکستان بھی صرف ایک ملک ہی ہے اور ہر ملک اس بات کا پابند ہے کہ وہ کثرتِ رائے کو ہی حکمِ خدا وندی تسلیم کرے اور بس۔