وزیر خزانہ کو روپے کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان کرنا ہو گا؛ پاکستان بزنس فورم

332

اسلام آباد: پاکستان بزنس فورم نے ہے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے دوبارہ شروع ہونے کے باوجود، ملک اب بھی فرسودگی کے سنگین بحران سے دوچار ہے،وزیر خزانہ کو روپے کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان کرنا ہو گا۔

پی بی ایف کے نائب صدر و سی ای او چوہدری احمد جواد نے کہا کہ وزیر خزانہ کو روپے کے بارے میں واضح پالیسی کا اعلان کرنا ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف کی بحالی کے باوجود زیادہ مہنگائی، روزگار میں کمی اور کم منافع کے حوالے سے تجارت اور صنعت کے دکھ کم نہیں ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پروگرام کے تحت برآمد کنندگان کے لیے بجلی کی رعایت واپس لے لی گئی جبکہ جنوری 2023 تک پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی کو 50 روپے فی لٹر تک بڑھانا ہے، اور شاید اس کے بعد اگلا مرحلہ جی ایس ٹی نافذ کرنا ہے جو کہ اچھے اشارے نہیں ہیں ملک کی معیشت کے لیے جب کہ کرنسی ایشیا میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔

 احمد جواد نے کہا کہ ٹیکس ریونیو، صنعتی پیداوار اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ دیگر اہداف کو کم کر دیا گیا ہے۔تمام اعداد و شمار تباہ ہو گئے ہیں،باوجود اس کے کہ پی بی ایف کا ماننا ہے کہ روپے کے مقابلے ڈالر کی حقیقی موثر شرح مبادلہ ایک ڈالر کے لئے PKR 200 سے کم ہے۔ اسی طرح اس قدرتی آفت میں اوپن مارکیٹ کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ معلوم ہوا ہے کہ غیر ملکی کرنسیوں کی اسمگلنگ دیکھی گئی ہے۔ بغیر کسی منطقی وجہ کے اچانک ڈالر کی قیمت دوبارہ کیوں بڑھی اور اگر سیلاب کی وجہ سے ہے تو یہ مبالغہ آرائی ہے۔

دوسری طرف افغانستان کے تاجر اپنی مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کے راستے بھاری درآمدات کر رہے تھے۔ وہ درآمدی ادائیگیوں کے لیے پاکستانی مارکیٹ سے امریکی ڈالر خرید رہے ہیں۔

 احمد جواد نے کہا کہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے رواں مالی سال 23-2022 کے لیے 3.9 فیصد کے متوقع ہدف کے مقابلے میں زراعت کی ترقی ایک فیصد رہ سکتی ہے۔

 انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کی بدترین کارکردگی سے قلیل مدت کے لیے اجناس کی درآمدات کی بڑھتی ہوئی طلب پر دبا ئوپڑے گا اور اگر پاکستان مطلوبہ کاروباری منصوبہ تیار کرنے میں ناکام رہا تو اس سے گندم اور چاول کے شعبے میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے اور اس کے لیے ہمیں فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔