فلسطین ایک مرتبہ پھر لہو لہو

429

گزشتہ چار پانچ دن سے ارض فلسطین ایک مرتبہ پھر اسرائیل کے غاصب ریاستی وجود کے نشانے پر ہے لیکن کسی کو خبر ہے اور نہ فکر۔ مغرب میں کسی جنونی قاتل کی فائرنگ سے دوچار لوگ قتل ہوجائیں تو پوری دنیا کے الیکٹرونک، سوشل اور روایتی میڈیا پر بھونچال آجاتا ہے لیکن ایک جنونی قاتل یہودی وجود کے ہاتھوں محض دو دن میں تیس سے زائد معصوم شہری شہید اور سو کے قریب زخمی ہوگئے لیکن کسی پیشانی پر فکر کی ایک لکیر ظاہر نہیں ہوئی۔ ایک زمانہ تھا جب یہودی وجود کی طرف سے فلسطین کی جانب ایک راکٹ بھی فائر ہوتا تھا تو خود ہمارے یہاں اخبارات شہ سرخیوں میں یہ خبر شائع کرتے تھے، مضامین اور اداریے لکھے جاتے تھے، ٹی وی پر تسلسل سے مذاکرے (ٹاک شوز) منعقد کیے جاتے تھے، سیاسی اور دینی جماعتیں عوام کو سڑکوں پر لے آتی تھیں، لازم تھا کہ ہر چھوٹا بڑا سیاسی لیڈر اس پر مذمتی بیان جاری کرے لیکن اب بجٹ ڈیفیسٹ، فارن ریزرو کی کمی مملکت کو لا حق سب سے عظیم مسئلہ ہے، کسی کو اپنی گورنمنٹ کی واپسی ہر شے سے بڑھ کر مطلوب ہے اور کسی کو مجھے کیوں نکالا کا جواب۔ میڈیا فارن فنڈنگ، توشہ خانے، توہین آمیز میڈیا ٹرولنگ اور نجانے کن کن موضوعات میں الجھا ہوا ہے۔ صرف پاکستان ہی میں نہیں تمام مسلم ممالک میں یہی سازشی تھیوریاں اور ڈرامے بازیاں امت کے اصل مسائل پر حاوی ہیں۔ ایسے میں اہل فلسطین کے زخموں پر کون نظر کرے؟
فلسطین کے حوالے سے اگر فکر مندی کا اظہار کیا بھی جاتا ہے تو معاملہ اقوام متحدہ کی قراردادوں، دو ریاستی حل اور او آئی سی کے اجلاسوں سے آگے نہیں جاتا۔ فلسطین کے معاملے کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ یہ کوئی علاقائی مسئلہ ہو، یااہل فلسطین کے انسانی حقوق کی پامالی اور ان کے جان اور مال پر جنگ کی صورت منڈلاتے خطرات کا مسئلہ ہو، یا اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پامالی یا بین الاقوامی قوانین سے انحراف کا معاملہ ہو یا اسرائیل کی جانب سے فلسطین کی سرحدوں میں دراندازی کا معاملہ ہو، یا دو ملکوں کی باہمی جنگ ہو یا یہ محض عرب اور یہودی وجود کا تنازع ہو۔ فلسطین کے مسئلہ کو ان زاویوں سے دیکھنا امت مسلمہ کے جذبات کی عکاسی ہے اور نہ مسئلہ کی اصل بنیادیں ہیں۔ فلسطین کا مسئلہ کسی خطہ زمین کی بازیابی کا مسئلہ نہیں ہے، یہ کسی قوم کے قومی تشخص کا مسئلہ بھی نہیں ہے، یہ محض عرب اور اسرائیل کا معاملہ نہیں ہے، فلسطین ہر مسلمان کے عقیدے کا معاملہ ہے، ہر مسلمان کے ایمان سے جڑا ہوا ہے، یہ مسلمانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ فلسطین وہ سرزمین ہے جس پر مسلمانوں کا قبلہ اوّل یعنی مسجد اقصیٰ موجود ہے جہاں رسالت مآبؐ نے ایک لاکھ چو بیس ہزار انبیائؑ کی امامت کروائی تھی، یہیں سے آپؐ نے سفر معراج کا آغاز کیا تھا۔ فلسطین وہ سرزمین ہے جو انبیائؑ کی سرزمین ہے، جس کے چپے چپے پر انبیائؑ کے قدموں کے نشان ہیں اور انبیائؑ کے وارث مسلمان ہیں نہ کہ عیسائی اور یہودی۔ یورپ میں جن کی 70فی صد تعداد کسی مذہب کو نہیں مانتی اور جو مانتی بھی ہے تو وہ ایکسپائرڈ مذہب ہے نہ کہ اصل حالت میں۔ فلسطین کی حرمت اور مقام امت مسلمہ کے قلوب میں جس درجے پر فائز ہے کسی دنیاوی پیمانے سے اس کا اندازہ نہیں لگا یا جاسکتا۔ فلسطین محض اہل فلسطین اور عربوں کی ذمے داری نہیں ہے فلسطین پوری امت مسلمہ اور اس کی افواج کی ذمے دار ہے کہ وہ اسے یہودی وجود کے قبضے سے آزاد کروائیں۔
اس مرتبہ اسرائیل نے ایک ایسے وقت میں فلسطین کی سزمین پر حملہ کیا ہے جو محرم الحرام کا مہینہ ہے۔ یہ حق وباطل کے ٹکرائو اور فیصلے کے ایام ہیں۔ جب وقتی طور پر مغلوب ہونے کے باوجود آخری دائمی فتح حق کو نصیب ہوئی۔ جب بھی اہل فلسطین پر ایسی گھڑی آتی ہے امت ازخود جڑنا شروع ہو جاتی ہے، مساجد کے منبروں سے واعظ اہل فلسطین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، رب کے حضور میں اٹھے ہوئے ہاتھ اہل فلسطین کی عافیت کی دعائوں کے لیے مخصوص ہو جاتے ہیں لیکن مسلم حکمرانوں کا معاملہ الگ ہے، خلیجی عرب ممالک ہوں یا وسط ایشیاء یا دنیا کے دیگر خطہ ہائے زمین کے مسلم ممالک کے حکمران فلسطین ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ سب امریکا کے تابع ہیں۔ ان کے مفادات امریکا سے وابستہ ہیں۔ امریکا اور اسرائیل کا معاملہ یہ ہے کہ اسرائیل امریکا کی بیس ہے جیسے بگرام ائر بیس، کابل بیس، قطر بیس، دوحا بیس۔ اسرائیل امریکا کی ایسی بیس ہے جسے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مسلمانوں کے وجود کے اوپر قائم کیا گیا ہے۔ جسے وہ اتنی ہی اہمیت دیتا ہے جیسے کسی دفاعی مورچے کو دی جاتی ہے۔ اسرائیل کے خلاف بولنا اور فلسطین کے حق میں کوئی قدم اٹھانا امریکا کی ناراضی کا سبب بنتا ہے جس کی یہ مسلم حکمران تاب لاسکتے ہیں اور نہ اسے افورڈ کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ او آئی سی ہو یا 34ممالک کا سعودی عرب کی سربراہی میں اتحاد فلسطین کے معاملے میں سب بے کار ہیں۔سب عضو معطل۔
جب ان حکمرانوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کے لیے اپنی افواج متحرک کریں تو ان کی طرف سے کیا ہی سادگی سے جواب آتا ہے کہ ملٹری آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ اگر ملٹری آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں ہے تو یہ بات امریکا اور روس کو سمجھ کیوں نہیں آتی جنہوں نے افغانستان، عراق، شام اور اب یوکرین کو ملٹری آپریشن کا ہدف بنارکھا ہے۔ فلسطین کو آزاد کرانے اور افواج کو متحرک کرنے کی جب بھی بات کی جاتی ہے تو دنیا بھر میں اور خود امریکا میں یہودیوں کے پھیلے ہوئے اثرر سوخ، ان کے سرمایے، ان کی اسلحہ ساز فیکٹریوں اور اسرائیل کی فوجی طاقت کا اس طرح ڈراوا دیا جاتا ہے کہ جیسے اسرائیل کے ساتھ جنگ کا سوچنا بھی خودکشی کے برابر ہے۔ ایسا نہیں ہے۔ اسرائیل کی فوجی طاقت محض مکڑی کا جالا ہے نہتے فلسطینیوں، عورتوں اور بچوں پر جس کا زور چلتا ہے۔ اگر جنگیں اسلحے کے بل پر جیتی جاسکتیں تو آج افغانستان امریکا کے قبضے میں ہونا چاہیے تھا۔ اگر امریکا جہاد کی تاب نہ لاسکا، ملا عمر کی فکر کے آگے نہ ٹھیر سکا تو ترشے ہوئے ناخن برابر اسرائیل کی کیا اوقات ہے کہ وہ جذبہ جہاد سے سرشار کسی ایک بریگیڈ کا مقابلہ بھی کرسکے۔
مسلم حکمران استعمار کی کھینچی ہوئی لکیروں اور قومی ریاستوں کے قیدی بن کر امت مسلمہ کی حقیقت اور اس کے مسائل سے غافل ہوکر رہ گئے ہیں۔ ان کی ترجیحات میں امت مسلمہ کہیں موجود نہیں ہے۔ ان کے خیال میں یہ پاکستان کا مسئلہ ہے، وہ افغانستان کا مسئلہ ہے، یہ یمن کا مسئلہ ہے، یہ شام کا اور وہ اہل فلسطین کا۔ پچاس سے زائد قومی ریاستیں محض اپنے مسئلے کو مسئلہ سمجھتی ہیں، فلسطین میں کیا ہورہا ہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر کیا بیت رہی ہے، ہندو اکثریت کے ہاتھوں تیس کروڑ بھارتی مسلمان کس ذلت اور درندگی کا شکار ہیں، شام اور اہل شام کس حال میں زندہ ہیں، یمن میں کیا ہورہا ہے، ایغور کے مسلمانوں کا مسلمان ہونا کس طرح جرم بنادیا گیا ہے، کہاں کہاں مسلمان کس کس کے ہاتھوں پریشان اور برباد ہیں یہ مسلم حکمرانوں کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے لیے اول وآخر ان کا اپنا اقتدار اور ملک ہے جس کی بقا اور حفاظت امریکا کا ایجنٹ بن کر ہی کی جاسکتی ہے۔
مسلم حکمران نہیں یہ نہتے مسلمان ہیں جو حق وباطل کے معرکے میں سرگرم ہیں جنہوں نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر اور دیگر علاقوں میں اپنی جانوں کے عوض محاذ گرم کررکھے ہیں۔رسالت مآبؐ کی توہین ہوتی ہے اور ریاستی سطح پر ہوتی ہے ان حکمرنوں کو تو ایک سفیر کو ملک بدر کرنے کی ہمت نہیں یہ نہتے اور عام مسلمان ہی ہوتے ہیں جو برسر احتجاج آتے ہیں، بائیکاٹ کرتے ہیں۔ ان مسلمانوں کو ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو امت کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھے اور اس کے لیے بروئے کار آئے۔ جو انہیں ایک جھنڈے اور ایک ریاست تلے متحد کرسکے۔ یہ خواب ہے نہ لاحاصل آرزو۔ ایسا جلد ہی ہوگا۔ دنیا دیکھ لے گی