بارش: سندھ و بلوچستان حکومتوں کی مجرمانہ غفلت

496

محکمہ موسمیات کی طرف سے بہت پہلے سے یہ پیش گوئیاں آرہی تھیں کہ اس دفعہ ملک میں اور بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں وقت سے پہلے یعنی مون سون کے آنے سے پہلے اور معمول سے زیادہ بارش ہوگی۔ یہ اطلاعات حکومت ہی کے ایک ادارے، محکمہ موسمیات کی طرف سے آرہی تھیں، متعلقہ محکمہ کی خاتون وزیر اسی قسم کے بیانات وقفہ وقفہ سے دیے جارہی تھیں کہ اس دفعہ زیادہ بارش ہوگی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محکمہ موسمیات نے جو پیشگوئی کی وہ ا گر ایک طرف عوام کو آگاہ کرنا تھا تو دوسری طرف حکومت سندھ کے ذمے داروں کو خطرات سے آگاہ کرنا تھا وہ اس کے لیے ذہنی طور پر نہ صرف تیار رہیں بلکہ اس سلسلے میں جو کرنے کے کام ہیں ان کی ترجیحات کا تعین کیا جائے متعلقہ بلدیات کو متنبہ کیا جائے کہ وہ آنے والی اس آزمائش کا مقابلہ کرنے کے لیے تیاری کرلیں، حکومت کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ بار بار عوام کو زیادہ بارش کی اطلاع دیتی رہے بلکہ وہ سرکاری اداروں میں ایمر جنسی کا اعلان کرتی، متعلقہ محکموں کے ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کرتی۔ ہو سکتا ہے یہ سب کچھ ہوا ہو لیکن سندھ اور بلوچستان میں بارش سے جو تباہی دیکھنے کو مل رہی ہے وہ ہمارے سرکاری اداروں اور محکمہ بلدیات کے ملازمین کی مجرمانہ غفلت کی نشاندہی کررہی ہے۔
بلوچستان میں ابھی تک پانی سے لاشیں مل رہی ہیں بعض مقامات پر تو یہ بھی اطلاعات ملیں کہ بچوں نے درختوں پر چڑھ کر عارضی پناہ حاصل کی وہ تین تین دن تک درختوں پر رہے لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں پہنچا حکومت بلوچستان زرا بلند آواز سے قوم کو بتائے کہ وہ سورہی ہے یا جاگ رہی ہے۔ سوشل میڈیا میں بہت کچھ اور ہمارے الیکٹرونک میڈیا میں یہ روح فرسا خبریں سننے اور دیکھنے کو مل رہی ہیں کس طرح چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور خواتین کی لاشیں پانی میں بہہ کر آرہی ہیں، حکومت بلوچستان کے کرتا دھرتا اور زعماء بڑے فخر سے اور سینہ تان کر یہ بات کہیں گے ہم نے پہلے ہی آگاہ کردیا تھا کہ اس دفعہ بہت زیادہ بارش ہوں گی اور سیلاب کا بھی خطرہ ہے، تو ان لوگوں نے اپنا بچائو کیوں نہیں کیا، حالانکہ یہ ذمے داری صوبائی حکومت کی تھی وہ متاثرہ علاقوں سے لوگوں کو نکال کر کسی محفوظ مقامات پر منتقل کرتی۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستا ن کی صوبائی حکومت نے کوئی اضافی یاخصوصی انتظام کرنے کے بجائے ان ہی افرادی قوت اور پہلے سے مہیا مشینی آلات پر اکتفا کیا جو پہلے سے ان کے پاس موجود تھیں۔ جو بچے تین دن تک درختوں پر لٹکے رہے ان تک ہمارے ادارے کیوں نہ پہنچ سکے یا پھر صوبائی حکومت نے کیوں نہ ان بچوں کی مدد کے لیے کوئی قدم اٹھایا، بھوکے پیاسے بچے درختوں سے گر گر کر مرتے رہے اور کئی مقامات سے جو خواتین اور بچوں کی لاشیں مل رہی ہیں ان سب کی موت کا ذمے دار کون ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کے ذمے داران، ان بچوں اور عورتوں کے قاتل ہیں ان پر قتل کے مقدمات چلنے چاہیے۔
دوسری طرف صوبہ سندھ کا بھی برا حال ہے یہاں پر پچھلے پندرہ برسوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہے پورے صوبے کی بلدیات کے محکمے ان کے پاس ہیں کروڑوں روپے کا بجٹ ان کے پاس ہے کراچی کے بڑے بڑے کمائو پوت ادارے اپنی تحویل میں لے لیے۔ عبدالستار افغانی تو موٹر وہیکل ٹیکس جو بلدیہ کراچی کا حق ہوتا ہے کے حصول کے چکر میں اپنی بلدیہ تڑوا بیٹھے اور جیل بھی گئے لیکن وہ حق نہ مل سکا اب تو صوبائی حکومت نے کراچی کے بہت سارے اداروں پر خود قبضہ کرلیا ہے جس میں سب سے زیادہ آمدنی والا محکمہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو صوبے میں لے لیا یعنی کے بی سی اے کے بجائے وہ اب ایس بی سی اے (سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی) بن گیا۔ آصف زرداری نے اپنے دور حکومت میں 18ویں ترمیم کے ذریعے بیش تر مالی وسائل جو پہلے وفاق وصول کرتا تھا اسے صوبوں کے حوالے کردیا اس ترمیم کے نتیجے میں صحت اور تعلیم کے محکمے وفاق سے صوبوں کی طرف آگئے، شہر کراچی جس سے حکومت سندھ اربوں روپے کماتی ہے اور اس سے کہیں زیادہ اس پارٹی کے لوگ کرپٹ بیوروکریسی کے ساتھ مل کر کھا جاتے ہیں لیکن کراچی کی ترقی کے لیے کوئی پیسہ نہیں لگاتے۔ جب شدید بارش کی پیشگوئیاں آرہی تھیں اس وقت صوبائی حکومت نے کراچی کے برساتی نالوں کی صفائی کے لیے وفاق سے کروڑوں روپے کے بجٹ حاصل کیے لیکن نالوں کی اس طرح صفائی نہ ہو سکی جیسا کہ ہونا چاہیے تھا، یہی وجہ ہے کہ پورا کراچی بارش اور سیوریج کے پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ ابھی ایک ہفتے قبل کراچی میں ایک ایسا اندوہناک حادثہ ہوا جیسا کہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا بارش کے دوران رات کے وقت ایک صاحب اپنی بیگم اور دو بچوں کے ساتھ شادمان ٹائون سے جارہے تھے کہ شدید بارش کی وجہ سے گاڑی سلپ ہو گئی وہ خود بھی گرے آگے ٹنکی پر جو بچی بیٹھی ہوئی تھی اسے انہوں نے فوراً پکڑلیا جو نالے میں بہنے سے بچ گئی لیکن پیچھے بیٹھی ہوئی اس کی بیوی کی گود میں دو ماہ کا بچہ تھا جو اس کی گود سے نالے میں گر گیا ماں بچے کو بچانے کے لیے خود بھی کود گئی تھوڑی دیر کے بعد ایدھی کے رضاکاروں نے اس کی بیوی جو مرچکی تھی کی لاش نکال لی لیکن آج ایک ہفتے سے زائد اس ہولناک حادثے کو ہو گیا لیکن دو ماہ کے بچے کی لاش ابھی تک نہ مل سکی۔ ڈھائی بجے رات کو جب حافظ نعیم الرحمن جائے حادثہ پر پہنچے تو ان صاحب نے جن کی بیوی اور بچہ ڈوب کر مرچکے تھے نے حافظ نعیم سے کہا کہ حافظ صاحب میرا بچہ تو چلا گیا اب آپ دوسروں کے بچوں کو بچانے کی فکر کیجیے اگر اس نالے کی صفائی کرکے اس کو بنادیا جاتا تو شاید یہ دلخراش حادثہ نہ رونما ہوتا۔
اس سے قبل بھی کراچی میں شدید بارشیںہوئی ہیں لیکن جو ابتر صورتحال کراچی کی اس دفعہ ہے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ کراچی میں سیوریج کا پورا نظام بیٹھ گیا ہے آپ کراچی کے کسی بھی حصے میں چلے جائیں بارش اور سیوریج کے پانی سے ہر جگہ آپ کا واسطہ پڑے گا گاڑیاں پھنس جاتی ہیں کاریں ڈوب جاتی ہیں کپڑے تو خراب ہو ہی جاتے ہیں اکثر اوقات لوگ زخمی بھی ہو جاتے ہیں۔ کراچی میں اب تک 70سے زائد لوگ اس بارش سے جاں بحق ہو چکے ہیں اس میں کئی لوگ تو کرنٹ لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں کراچی والوں کے لیے تو کے الیکٹرک بھی کسی عذاب سے کم نہیں آئے دن اس کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بھی بڑھتا رہتا ہے حکومت سندھ نے بارش کا فائدہ اٹھا کر بلدیاتی انتخاب ملتوی کروادیے جبکہ تمام سیاسی جماعتیں اب تک اس پر کروڑوں روپے خرچ کر چکی ہیں، دراصل پی پی پی کی صوبائی حکومت بلدیاتی انتخاب کرانا ہی نہیں چاہتی اس لیے کہ ان کے لوگوں کی آمدنی کے ذریعے مارے جائیں گے کروڑوں روپے کا جو بجٹ کراچی کے نالوں کی صفائی کے لیے پی پی پی کی صوبائی حکومت کو ملے تھے اگر وہ ٹھیک سے خرچ ہو جاتے اور نالوں کی صفائی بھرپور طریقے سے ہو جاتی تو آج کراچی میں بارش سے شہریوں کو وہ مصیبت نہ ہوتی جس کا انہیں آج سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ کراچی میں 14اگست کے فوری بعد بلدیاتی انتخابات کرادیے جائیں۔