میانمر میں جمہوریت پسند کارکنوں کو پھانسی دیدی گئی

492
Myanmar army

برما: میانمر میں بر سر اقتدار فوجی حکام نے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں مدد کرنے کے الزام میں جمہوریت کے لیے کام کرنے والے چار کارکنوں کو سزائے موت دے دی ہے۔

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں کئی دہائیوں میں پہلی مرتبہ سزائے موت دی گئی ہے،ان چاروں افراد کا رواں برس جنوری میں بند دروازوں کے پیچھے ٹرائل ہوا تھا جس میں انہیں موت کی سزا سنائی گئی تھی، ان افراد پر فوج سے لڑنے والی ملیشیا کی مدد کا الزام عائد کیا گیا۔

سزائے موت پانے والے افراد میں جمہوریت کے لیے کام کرنے والے کیو من یو، جو جمی کے نام سے مشہور ہیں، اور سابق قانون ساز اور ہپ ہاپ آرٹسٹ فاؤ زیا تھا شامل ہیں۔ 53سالہ کیو من یو اور 41 سالہ فاؤ زیا تھا فوج کی جانب سے اقتدار سے نکالے جانے والی رہنما آنگ سان سوچی کے اتحادی تھے۔ 

دونوں کی اپیلیں جون میں مسترد کر دی گئی تھیں،سزائے موت پانے والے دیگر دو افراد ہلا میو آنگ اور آنگ تھورا زا تھے، ان چاروں پر انسداد دہشت گردی کے قانون اور تعزیرات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور یہ سزا جیل کے طریقہ کار کے تحت دی گئی ہے۔

میانمر میں پھانسی کے ذریعے سزائے موت دی جاتی رہی ہے،سیاسی قیدیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے مطابق فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے اب تک سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 2 1سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جبکہ فوجی حکومت کے مطابق یہ اعداد و شمار مبالغہ آمیز عالمی سطح پر میانمر میں جمہوریت پسند چار افراد کو سزائے موت دینے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور اقوام متحدہ کے دو ماہرین نے انہیں لوگوں میں خوف پھیلانے کی مذموم کوشش قرار دیا ہے۔

واضح رہے کہ میانمار کی فوج نے گزشتہ برس ملک میں منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور اپنے مخالفوں کے خلاف خونی کریک ڈاؤن شروع کا آغاز کر دیا تھا۔