از مکافات ِ عمل غافل مشو (2)

922

ایک بات تو صرف سمجھنے کی ہے۔ اگر کسی کے ساتھ برا کرو اور خود پر برا وقت آجائے تب بیٹھ کر یہ سوچو کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے اور جواب نہ ملے، حقیقت جانتے ہوئے بھی اس بات کا اعتراف نہ کر سکو کہ یہ مْکَافَاتِ عَمَل ہے تو شاید ابھی ضمیر سو رہا ہے۔ ہر انسان کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ جب وہ کچھ برا کر رہا ہوتا ہے تو اس کا ضمیر اس کو ملامت ضرور کر رہا ہوتا ہے مگر یہ الگ بات ہے کہ اس آواز کو دبا دیا جاتا ہے اور اس کی سنی نہیں جاتی۔ برے وقت کی برائی سے ڈرنا چاہیے اور اس فانی دنیا میں کچھ بھی کرنے سے پہلے ایک بار مْکَافَاتِ عَمَل کے بارے میں ضرور سوچ لینا چاہیے۔ مْکَافَاتِ عَمَل کے متعلق لوگوں نے ایک رائے یہ قائم کرلی ہے کہ تمہارے برے اعمال کے عوض یہ مسائل و مشکلات تم پر یا تمہارے افراد خاندان پر منڈلا رہے ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا ایک امتحان گاہ بھی، زندگی میں مختلف مقامات پر کئی قسموں کے امتحانات و آزمائش کا سامنا بھی کرنا ہوتا ہے۔ زندگی عمل کے لیے ہے، اخلاص اچھے عمل کا سبب ہے اور ہمارا امتحان اس عمل میں ہے۔ اگر زندگی نہ ہوتی تو عمل کا موقع نہ ملتا اور اگر آخرت نہ ہوتی تو محاسبہ نہ ہوتا۔ لہٰذا امتحان کے بعد اس کا نتیجہ یا تو اس آزمائش میں کامیاب ہونا ہے یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔ دنیا کی زندگی ’’دَارْالعَمَل‘‘ یعنی اعمال کی انجام دہی کا مقام ہے، اس کے برعکس آخرت کی زندگی ’’دَارْالبَدَل‘‘ ہے۔ دنیا ’’دَارْالفَناء‘‘ اور خاتمے کا گھر ہے اور آخرت ’’دَارْ البَقاء‘‘ ہے۔ دنیا دھوکے کا گھر ہے اور آخرت ’’دَارُالسُرور‘‘ یعنی خوشی کا گھر ہے۔ اکثر لوگ گناہوں کا ملبہ کسی ایسے بے گناہ پر ڈال دیتے جس کا اس عمل سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ کہا یہ جاتا ہے کہ انسان زنا کی شکل میں جو گناہ کرتا ہے وہ اس کے قریبی خواتین سے وصول کیا جاتا ہے۔ یہ نہایت ہی عبث اور بے کار سوچ و فکر کی عکاسی ہے۔ مْکَافَاتِ عَمَل کے سلسلے میں یہ قول بھی بے انتہائی مشہور ہورہا ہے کہ ’زنا ایک قرض ہے‘ جسے بہن، بیوی یا بیٹی چکاتی ہے۔ یہ قول قرآن کی کسی آیت یا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اس جملے کو حدیث کہہ کر یا شرعی دلیل سمجھ کر بیان کرنا جائز نہیں۔ دراصل یہ امام شافعی کا شعر ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ:
ان الزنا دین فان قرضتہ
کان الوفاء باہل بیتک فعلم
(زنا ایک قرض ہے، اگر تو یہ قرض لے گا تو اس کی ادائیگی تیرے گھر والوں سے ہوگی)
یاد رکھیں کہ شرعی اعتبار سے ہر شخص اپنے نیک و بد اعمال کا خود ذمہ دار ہے اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ یعنی کسی کے زنا کا بدلہ کسی دوسرے (ماں، بہن یا بیٹی) سے نہیں لیا جائے گا۔ اس گناہ کا بوجھ اسی پر ہوگا جس نے کیا ہے۔ خطبہ حجتہ الوداع جو خاتم النبیینؐ نے حج کے موقع پر دیا وہاں آپ نے فرمایا ’’باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لیا جائے گا‘‘ یعنی جس کا قصور ہے وہی سزا پائے گا۔ اسی بات کو اللہ ربّ العزّت نے قرآن مجید میں یوں فرمایا ہے: ’’کوئی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا‘‘۔ (سورۃ النجم: 38)
اپنی ذات کو ندی کا آگے بڑھتا ہوا صاف و شفاف پانی بناؤ، زندگی حرکت کا نام ہے اور جمود موت کی علامت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے کارواں میں نئے لوگوں کو شامل کرتے رہو۔ زندگی میں کسی کی تذلیل کرکے آگے بڑھنے سے پرہیز کریں۔ کسی کے خلوص و محبت اور اعتماد کو حقارت کی نگاہوں سے نا دیکھیں۔ نیک اعمال کے نتیجے ہی میں ہم لوگوں کے دلوں میں محبت و عزت کی جڑوں کو مضبوط و مستحکم بنا سکیں گے۔
آخر خار دار جھاڑیوں کے بیج بو کر پھولوں کی خوشبو کوئی کیسے وصول کرسکتا ہے۔ اس کے لیے عمدہ خوبیاں اپنی ذات میں شامل کرنی ہوگی۔ رشتوں کو اہمیت دینی ہوگی تب کہی جاکر ان رشتوں سے محبت کی خوشبو اور اپنائیت کا احساس پاسکتے ہیں۔ مْکَافَاتِ عَمَل یہی ہے کہ اگر آپ کی ذات سے کسی کو دکھ پہنچے تو آپ بھی قہر خداوندی سے نہیں بچ سکتے۔ ہر انسان کو اپنے اعمال کا ایک حصّہ بطورِ قرض دنیا میں بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو حکمران برسرِ اقتدار آکر اپنے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر صرف زبانی جمع خرچ اور نہ پورے ہونے والے وعدوں تک محدود رہ جاتے ہیں اور عوام کے سر غربت و افلاس اور طرح طرح کے مسائل کے ڈھیر چھوڑ جاتے ہیں، ان کا سورج بھی ایک دن اسی طرح تاریکی اور گمنامی کی دنیا میں ڈوب جاتا ہے۔ پھر ان کے مقدر میں صرف رسوائی ہی رسوائی لکھ دی جاتی ہے۔ طاقت اور اقتدار کی سطح پر ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے اہل خانہ اور بوڑھے کمزور والدین کے سامنے نوجوان بیٹوں کو گھسیٹتے ہوئے لے جاکر، انہیں جھوٹے الزامات لگا کر بے بنیاد مقدمات میں ملوث کردیا جاتا ہے۔ کچھ مظلوم و بے گناہوں پر اذیت کے ایسے پہاڑ توڑے جاتے ہیں کہ اس کی روح دنیا سے پرواز کر جاتی ہیں۔ جو آج طاقت و اقتدار کے نشے میں چور اور اندھے ہوئے پڑے ہیں، انہیں بھی جلد خوابِ غفلت سے بیدار ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ وقت کی چکی تو گھوم رہی ہے۔
آج کے اس بے رحم و ظالم معاشرے میں خواتین اور چھوٹی چھوٹی بیٹیوں تک کو اغوا کرکے قتل کردیا جاتا ہے۔ کہیں آہنی بلڈوزر کسی بے گناہ کے گھر پر قہر بن کر ٹوٹتا ہے اور پھر توڑ جوڑ نہ ہونے کی صورت میں جعلی مقابلوں میں ماؤں کے لخت ِ جگر کو مظلوم ہونے کی پاداش میں موت کے گھاٹ اُتار دیتا، ان کی گود اور سہاگنوں کا سہاگ اجاڑ دیتا۔ نظام باطل حق کی آواز کو ظلم و استہزاء کے ذریعے دبانے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ اْن مظلوموں اور ان کے درد سے بلکتے بچوں، غم کے پہاڑ برداشت کرتی ماؤں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں کے لیے تو موجودہ جماعتوں اور ادارے کے سربراہ کبھی اپنے خول سے باہر نہیں نکلے، مگر باطل پرستوں کی حمایت و جی حضوری کے لیے اپنے خول سے باہر ضرور نظر آئے۔ آج انہیں نام نہاد قائدین کے دامن پر معصوم و بے گناہوں کے لہو کے گرم گرم چھینٹے پیوست ہیں، بلکہ ان کا پورے کا پورا لباس ہی بے گناہوں کے خون سے تر بہ تر ہے۔ اگر عزم و حوصلہ نہیں ہے تو کیوں اتنے بڑے بڑے منصوبوں پر ڈیرا ڈالے بیٹھے ہو۔ سن لو اگر یہاں بھی مْکَافَاتِ عَمَل کی چکی چل گئی تو کہیں کے نہ رہو گے۔
ایسا یہاں کوئی پہلی بار تھوڑا ہی ہوا ہے۔ ظلم کی اس تاریک رات کی ایک طویل داستان ہے۔ اگر ہمارے علمائے کرام، دانشورانِ ملت، سیاسی قائدین نے مظلوموں کی داد رسی کی ہوتی، ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے ہوتے اور سب نے مل کر ظالموں کے بازو مروڑنے کے لیے کوئی ٹھوس لائحہ عمل اختیار کیا ہوتا، تو آج شاید انہیں یوں ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑ رہا ہوتا۔ پھر ’’چوکیدار‘‘ اور اس کے حوارین بھی اپنے سائز اور اوقات میں رہتے۔ لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دنیا اس وقت بدترین مْکَافَاتِ عَمَل کے انتظار میں ہیں۔