قرضہ مل گیا۔ گرے لسٹ ختم۔ مسائل موجود

500

وزیراعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے سے معیشت کی بہتری ہوگی۔ انہوں نے اس سے قبل دعویٰ کیا تھا کہ بجٹ کئی اعتبار سے پچھلی حکومت سے بہتر ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات اچھے ہورہے ہیں، معیشت پر بوجھ کم ہوگیا ہے، ساری باتیں جو صرف باتیں ہیں سر آنکھوں پر لیکن۔ خوردنی تیل، مٹی کا تیل، آٹا، روٹی، سبزیاں، پھل اور دوائیں تک مہنگی ہورہی ہیں۔ حکومت کا بوجھ کم ہوگیا اور عوام پر بوجھ بڑھ گیا۔ سونا عوام کا فوری مسئلہ نہیں لیکن وہ بھی روزانہ کی بنیاد پر مہنگا ہورہا ہے، زرعی ملک میں یوریا کھاد بھی اسی طرح پَر لگائے اُڑتی جارہی ہے۔ مارکیٹیں 9 بجے رات کو بند ہورہی ہیں اور بجلی پھر بھی مہنگی کی جارہی ہے۔ اس پر لوڈشیڈنگ میں ایک دن بھی کمی نہیں ہوئی۔ اگر عوام پر بوجھ بڑھنا ہی تھا تو آئی ایم ایف، پٹرول کی قیمتیں بڑھانا، سبسڈی ختم کرنا، فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنا، ان سب کی کیا ضرورت تھی، فیٹف کی جانب سے گرے لسٹ سے نکلنے کا عندیہ کیا ملا، پورے پاکستان میں بیک وقت کئی ادارے بغلیں بجارہے ہیں، عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ ہماری حکومت کی محنت ہے، پاک فوج کا کہنا ہے کہ ہمارے کورسیل نے یہ کارنامہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے سربراہ پی ڈی ایم کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ یہ ہمارا کارنامہ ہے اور پیپلز پارٹی اسے اپنے کھاتے میں ڈال رہی ہے۔ ان سطور کے لکھنے تک ایک اور دعویدار ایف بی آر بھی سامنے آچکا ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اس نے فیٹف شرائط کی تکمیل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ کلیدی کردار کا دعویٰ فوج کے کورسیل نے بھی کیا ہے اور پی ٹی آئی نے بھی۔ ان سب نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے اہم ملاقاتیں کرلیں۔ لیکن اس سارے عمل کا سارا بوجھ جس پر ڈالا وہ 22 کروڑ سے زیادہ پاکستانی عوام ہیں۔ سارا بوجھ ان پر لادا گیا ہے۔ قسم قسم کے قوانین لائے گئے، بینک سے پیسے اس طرح نہیں نکالے جاسکتے۔ اکائونٹ کھولتے وقت تمام معلومات لی جاتی ہیں لیکن اس اکائونٹ سے بڑی رقم نکلواتے وقت پہلے سے اطلاع کیوں نہ دی۔ سپر ویژن اور سیکورٹی چیک وغیرہ ان سب کا اثر عوام پر پڑتا ہے۔
کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات، پٹرول کی قیمتیں بڑھنے، دوائیں غائب اور مہنگی ہونے، بجلی گیس مہنگے کرنے سے معیشت پر کیا مثبت اثرا پڑا ہے۔ عوام کی پنشن اور سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 15 فی صد اور 10 فی صد اضافے کے اعلانات سے ان کو کیا فائدہ ہوا؟ ظاہر ہے ٹافیا بیچنے والے وزیرخزانہ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ البتہ ان کی ٹافیاں اور چاکلیٹ زیادہ فروخت ہورہی ہیں۔ حجم میں کمی اور قیمت میں اضافہ۔ پورے ملک میں جشن منانے والوں نے اس معاملے میں سب سے زیادہ قربانی دینے والے عوام کو بھلادیا، اگر یہ سب مل کر یہ کہتے کہ پاکستانی قوم نے قربانی دے کر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کی راہ ہموار کی ہے تو ان سب کو بقول حنا ربانی کھر تمغے ملنے چاہیے تھے۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا سارا کریڈٹ پاکستانی قوم کو جاتا ہے۔ معیشت میں بہتری تو کسی اعتبار سے نہیں ہورہی۔ اس کا معیار تو عوام کی حالت زار ہی ہے۔ جو تین کے بجائے دو وقت کے کھانے سے بھی محروم ہورہے ہیں۔ زرعی ملک میں کھاد، بیج، پانی نایاب ہے۔ ان ہی دعویداروں نے ہائبرڈ فصل کا سبز باغ دکھایا تھا اب لوگ دیسی پپیتے، دیسی آلو بخارے اور دیگر سبزیوں سے بھی محروم ہورہے ہیں۔ دالیں درآمد کی جارہی ہیں اور وزیراعظم اور وزیر خزانہ کہتے ہیں کہ معیشت کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ حکمران جھوٹ بولتے ہیں عوام کی عادت ہوگئی ہے کہ وہ جھوٹ کے سوا کچھ سننا ہی نہیں چاہتے۔ جو سچ ہے اس کو وہ چھپاتے ہیں اور جو سچ بولے اس کی بات کو اگلے وقتوں کا قصہ قرار دے کر مذاق اڑاتے ہیں۔
اب وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام دو دن میں بحال ہوجائے گا۔ اگر ہوگیا ملک کو قرضہ مل گیا تو کیا ہوگا۔ کیا مسائل حل ہوجائیں گے۔ کیا عوام خوشحال ہوجائیں گے۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ جو لوگ سیاست میں حکمرانی کرتے رہتے ہیں ان میں سے کسی کے دل میں خوف خدا ہوتا تو قوم پر بے تھاشا بوجھ نہ ڈالا جاتا۔ یہ جو دعوے کرکے وقت گزارا جاتا ہے اس سے خرابیاں اور بڑھی ہیں۔ مقابلہ ہی اس بات کا ہے کہ ہماری حکومت زیادہ قرضہ لائی اور آسان شرائط پر لائی، تمہاری حکومت تو مشکل شرائط پر لائی تھی اور آسان شرائط میں سے سب سے آسان یہ ہوتی ہے کہ قرضہ پانچ سال کے بجائے 15 سال میں واپس کیا جائے۔ یہ آسانی ملک کی نہیں حکمرانوں کے لیے ہوتی ہے۔ پندرہ سال تو کوئی حکمران نہیں رہتا پانچ سال یا دس سال اس کے بعد آنے والے بھگتیں۔ جس حکمران نے بھی قرضہ لیا اس کو معلوم تھا کہ ادا کرتے وقت دوسرا حکمران ہوگا ہم اپوزیشن میں بیٹھ کر شور مچائیں گے۔ ان کا حال یہ ہے کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی بینک، جاپان، چین، سعودی عرب، امریکا سے بھیک مانگتے رہیں۔ اس کے اتنے عادی ہوگئے ہیں کہ اگر یہ سب قرضہ معاف کرکے آئندہ قرضہ نہ دینے کا اعلان کردیں تو یہ مر ہی جائیں گے۔ گویا…
اتنے مانوس صیاد سے ہوگئے
اب رہائی ملے گی تو مرجائیں گے
اور یہ سب مل کر آشیاں بھی جلا چکے اور گلستاں بھی لٹا چکے ہیں۔ اب کچھ بچا بھی نہیں۔