چائے نہیں، غم کھائیں، خون جگر پئیں

451

وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے قوم کو مشورہ دیا ہے کہ چائے پینا کم کردے۔ انہوں نے تاجروں سے بھی اپیل کی کہ وہ ساتھ دیں اور بازار 8 بجے بند کردیں۔ وفاقی وزیر کی بات سن کر بے ساختہ جو خیال آیا وہ پہلے ہی ہر ایک کی زبان پر تھا کہ سابق حکومت کے ایک صحت مند تن و مند وزیر نے فرمایا تھا کہ قوم ایک روٹی کم کھالے گویا قوم روٹی کم کھائے۔ پانی کے لیے صبر کرے، بجلی کے لیے رات بھر انتظار کرے، پٹرول کے لیے لائن لگائے، گھر کے سامان کے لیے یوٹیلیٹی اسٹور پر دھکے کھائے اور چائے بھی کم پیئے۔ لیکن حکمرانوں کے آرام، پروٹوکول، اللے تلے میں کوئی فرق نہ آئے۔ پاکستانی حکمرانوں اور عوام میں اتنا فرق ہے کہ لوگ تصور نہیں کرسکتے ان کے زیر استعمال ایک گاڑی 40 لاکھ سے ایک کروڑ تک کی ہوتی ہے۔ اور ان کے قافلے میں ایسی درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں سول، فوجی ہر قسم کے حکمران ایک ہی ہیں۔ آج تک یہ نہیں ہوا کہ قوم کو آدھی روٹی کھانے کا مشورہ دینے والا خود اپنی ایک گاڑی کم کرلے۔ ہر وزیر، ہر مشیر کے اثاثے حکومت میں رہتے ہوئے بڑھتے ہی ہیں کسی کے اثاثے کم ہوتے نہیں دیکھے گئے۔ ہاں الیکشن کو بڑے محتاط اعداد و شمار دیے جاتے ہیں لیکن پھر بھی بہت کچھ سامنے آجاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق وزیر خارجہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری کے اثاثوں کی مالیت ایک ارب 60 کروڑ روپے ہے۔ دبئی میں دو جائدادوں کے مالک ہیں۔ دبئی میں ایک بنگلا تحفے میں ملا ہے۔ (ہمیں کوئی نہیں دیتا ایسا تحفہ) اور ایک بنگلہ وراثتی بھی ہے۔
پاکستان میں ان کی 19 جائدادیں ہیں اور ان کے پاس 6 کروڑ 68 لاکھ روپے نقد بھی ہیں۔ ان کے سات بینک اکائونٹس ہیں۔ بیرون ملک ان کے پاس 150 تولہ سونا اور سات گھڑیاں ہیں۔ جب کہ ان کے والد سابق صدر آصف زرداری کے اثاثوں کی مالیت 71 کروڑ 42 لاکھ روپے صرف ہے۔ پاکستان میں ان کی 20 جائدادیں ہیں۔ ان کے پاس ایک کروڑ 66 لاکھ روپے کا اسلحہ بھی ہے۔ وہ چھے گاڑیوں کے بھی مالک ہیں۔ بیرون ملک ان کی کوئی جائداد نہیں۔ فواد چودھری بھی پاکستان میں سات جائدادوں کے مالک ہیں۔ عمران خان کے اثاثوں کی مالیت صرف 14 کروڑ 2 لاکھ روپے ہے۔ کئی گھر ہیں۔ گرینڈ حیات ٹاور میں 2 فلیٹ کی بکنگ کرا رکھی ہے ان کی اہلیہ بھی کئی جائدادوں کی مالک ہیں لیکن ان کے پاس بنی گالہ میں بھی جائداد ہے۔ کیسے… یہ سوال کون پوچھے گا۔
یہ معلومات وہ ہیں جو الیکشن کمیشن کو دی گئی ہیں اور جو معلومات نہیں دی گئی ہیں ان کے لیے الیکشن کمیشن کو چابی دینے والوں کی ناراضی کا انتظار کریں سب سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ بالفرض یہی کچھ ہے تو ایک عام پاکستانی ایک 60 یا 80 گز کے گھر کو ترس رہا ہے۔ بینک اکائونٹ ہے ہی نہیں، ہے تو خالی ہے۔ لاکھ روپے بیک وقت دیکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ ارکان اسمبلی میں ایسے لوگ مل جائیں گے جن کے پاس کرایہ کا مکان ہے اور وہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں یا ملازمت کرتے ہیں لیکن حکمرانوں میں کوئی ایسا نہیں ملتا۔ لیکن تقریروں میں سب عوام کی حالت زار کا رونا روتے ہیں۔ سب کی زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا ہے، عوام، عوام اور عوام لیکن عوام کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ آدھی روٹی کھائو، چائے کی دو پیالیاں کم پیو، اور اشیائے خورونوش اتنی مہنگی کردیں کہ عوام کو ایسا ہی مشورہ دیا جاسکتا ہے کہ غم کھائو خون جگر پیو… یہ حکمران طبقہ جس میں جنرل پرویز مشرف بھی شامل ہیں اور وہ اصل حکمران بھی ہیں جو آسٹریلیا جا کر جزیرے خرید لیتے ہیں۔ حبیب جالب اسی لیے کہہ گئے تھے کہ
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
اپنا حلقہ ہے زنجیر
اور حلقے ہیں سب امیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
(بلاول زرداری نہیں)
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے (حکمران)
سازشیں ہیں وہی خلافِ عوام
(بجٹ/ ٹیکس)
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
بیڑیاں سامراج کی ہیں وہی
(آئی ایم ایف)
وہی دن رات ہیں اسیروں کے
ان اشعار پر غور کریں تو پاکستانی سیاست کی عکاسی کرتے نظر آئیں گے۔
جالب نے یہ اشعار طویل عرصہ قبل کہے تھے لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ آج کے حالات کی عکاس ہے۔ اس پر بھی دلاور فگار کہہ چکے کہ
حالات حاضرہ میں اب اصلاح ہو کوئی
اس غم میں لوگ حال سے بے حال ہوگئے
حالات حاضرہ نہ سہی مستقل مگر
حالات حاضرہ کو کئی سال ہوگئے
یہ حالات حاضرہ، قرضوں میں اضافہ، عوام پر ٹیکسوں کا انبار، مہنگائی کا سونامی، حکمرانوں کے جھوٹ اور جعلی دنگل… یہ سب حالات حاضرہ ہی تو ہیں جو ایوب خان کے وقت سے لے کر مسلسل چلے آرہے ہیں۔ ایک گروہ کو حکومت بنایا جاتا ہے دوسرے کو اپوزیشن۔ جب یہ کھیل پرانا ہوگیا تو ’’تبدیلی‘‘ آگئی۔ لیکن قرضے، مہنگائی، ٹیکس، بیروزگاری، انارکی، کرپشن ایک دن کے لیے بھی بند نہیں ہوئی۔ سب کی زبان پر عوام، عوام اور عوام ہے۔ اور عوام کا حال وہی ہے جو جالب نے بتادیا تھا۔