’’جھوٹے نے جھوٹے سے کہا… سچ بولو‘‘

806

سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے موجودہ وزیر خزانہ سے کہا ہے کہ دھوکا دینا بند کریں۔ عوام سب جانتے ہیں۔ اس کے فوراً بعد انہوں نے ایسی بات کہہ دی جس پر مفتاح اسماعیل کا یہ کہنے کا حق بن گیا کہ شوکت ترین صاحب دھوکا نہ دیں عوام سب جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری گزشتہ 2 سال کی کارکردگی گزشتہ 30 سال میں سب سے بہتر ہے۔ لیکن جس صفحے پر یہ خبر یا دعویٰ شائع ہوا ہے اسی صفحے پر یہ خبر بھی ہے کہ شوکت ترین نے 20 ہزار ارب روپے قرض لینے کا اعتراف کرلیا۔ اس سے ایک روز قبل کی خبر یہ ہے کہ شوکت ترین صاحب نے پی ٹی آئی کی وکالت کرتے ہوئے فرمایاکہ پاکستان کے اب تک کے قرضوں کا پی ٹی آئی نے 80 فی صد قرض نہیں لیا۔ لیکن انہوں نے بڑی رعایت کے بعد کہاکہ 76 فی صد لیا ہے۔ ان کا یہ اعتراف پی ٹی آئی عمران خان اور ان کی پوری ٹیم کے چار سالہ دعوئوں پر بھاری ہے۔ لیکن وہ پھر بھی موجودہ وزیر خزانہ سے کہہ رہے ہیں کہ دھوکا دینا بند کریں عوام سب جانتے ہیں۔ مشکل یہی ہے کہ عوام سب جاننے کے باوجود کچھ نہیں کرسکتے۔ پتا نہیں اس موقع پر معروف شاعر راحت اندروی کیوں یاد آگئے۔ آج کل ان کا ایک کلام بہت وائرل ہورہا ہے کہ
جھوٹے نے جھوٹے سے کہا… سچ بولو…
اچھا تو بات یہ ہورہی تھی ہمارا بجٹ اچھا۔ ہمارا چور اچھا۔ ہم اچھے۔ دوسرے برے۔ لیکن اس کھینچا تانی میں یہ کیا ہوا کہ اپنے ہی ملک کو بددعائیں دینے لگے۔ پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر عمر ایوب نے پیش گوئی کی ہے یا خواہش ظاہر کی ہے کہ پٹرول 310 روپے فی لٹر ہوجائے گا۔ اور بجلی 40 روپے فی یونٹ ہوجائے گی۔ شوکت ترین کہتے ہیں کہ حکومت کو آئی ایم ایف سے ریلیف نہیں ملے گا۔ اس نے خسارے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ یہ بات شوکت ترین ہی کہہ سکتے ہیں کیوں کہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آئی ایم ایف کس کس کو ریلیف دیتا ہے۔ اسی طرح اس پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی رہنما مزمل اسلم نے کہا کہ اب مہنگائی 35 فی صد سے زیادہ ہوجائے گی۔ یہ ان کی خواہش بھی ہے تاکہ شور کرسکیں۔
ان رہنمائوں کے بیانات سے ایسا لگ رہا ہے کہ دونوں ہاتھ اٹھا کر یا جھولی پھیلا کر ملک کو بددعائیں دے رہے ہیں۔ میرا بچہ مرا تیری اولاد بھی مرے… خدا غارت کرے… وغیرہ وغیرہ… یہ کیا رویہ ہے کہ حکومت کیا گئی ہر صبح ان کو ملک تباہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ عمر ایوب نے تو کمال ہی کردیا کہتے ہیں کہ امپورٹڈ حکومت نے اگلے ہی مہینے آئی ایم ایف کے پاس جا کر خودکشی کرلی۔ گویا وہ اپنے لیڈر پر بھی طنز کررہے ہیں۔ گئے تو وہ بھی آئی ایم ایف کے پاس تھے، یہ پہلے مہینے میں چلے گئے۔ وہ تھوڑا رک کر گئے۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ایک دفعہ جو خودکشی کرلے قیامت تک کرتا رہے گا۔ چناں چہ پی ٹی آئی کی جگہ پی ڈی ایم نے لے لی ہے۔ اب وہ خودکشی کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کون سی نئی بات ہوگئی ہے کہ شوکت ترین، عمر ایوب اور مزمل اسلم پاکستان ہی کو بددعائیں دینے لگے۔ یہ کام تو وہ بھی کرتے تھے بلکہ نئے سرے سے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر تو عمران خان نے سجدہ کیا تھا۔ اگر جائزہ لیا جائے تو بہت سادہ سا فارمولا ہے کہ ایک مرتبہ آئی ایم ایف کے جال میں پھنسے تو نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ مفتاح اسماعیل سری لنکا بننے سے بچانے کی بات کررہے ہیں لیکن اس کے لیے باتیں نہیں کام کرناپڑتا ہے۔ گزشتہ حکومت کے وزیر خزانہ نے قرض سے متعلق جو اعتراف کیا ہے وہ بجائے خود ایک ایف آئی آر ہے۔ اسٹیٹ بینک کی اپنی رپورٹ ہے کہ سال 2021-22 میں پاکستان کے قرضوں میں 6 ہزار 625 ارب روپے اضافہ ہوا ہے۔ ہر سال اوسطاً 4 ہزار ارب روپے قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف ذرا ہمارے لیڈروں کی بیماریوں کا حال دیکھیں جب جنرل ضیا آئے تھے تو بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو ایک ایسی بیماری کے نام پر ملک سے باہر گئی تھیں جس میں زندگی کی توقع 5 سال سے زیادہ نہیں ہوتی لیکن وہ 15 سال سے زیادہ زندہ رہیں۔ پھر ان کے داماد جب جیل گئے تو لاٹھی ٹیکتے ہوئے عدالت آتے جاتے تھے۔ صدر مملکت بنتے ہی چست اور توانا ہوگئے۔ آج کل پھر بیمار ہیں۔ میاں نواز شریف بیمار ہوئے اور ایسے ہوئے کہ ان کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔ کم از کم قوم کو تو یہی بتایا گیا۔ لندن کی فضائوں میں پہنچ کر صحت بحال ہوگئی اور وہاں تمام معمولات انجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر نے جھوٹ بولا یا پارٹی نے حقیقت چھپائی۔ پی ٹی آئی حکومت نے انہیں جانے دیا اور عدالت پر ملبہ ڈالا۔ جو بھی ہو قوم کو اب تک نہیں پتا چلا کہ انہیں کیا ہوا تھا۔ اور بھی بہت سے بیمار ہیں۔ ایک بیمار الطاف حسین ہیں جو 1992ء سے بیمار ہیں اور وہاں رہ کر صحت مند ہیں۔ اب کس کی باری ہے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں، زیادہ دن نہیں لگیں گے۔ پاکستانی سیاست کے دن پھر بدل ڈالے گئے ہیں۔ کل کے حکمران آج مجھے کیوںہٹایا کہتے پھر رہے ہیں لیکن وہ اس سے بھی آگے نکل گئے۔ ان کے ترجمان تو ملک کو دیوالیہ کررہے تھے یہ دشمن سے بھی زیادہ نقصان کی پیشگوئی یا خواہش کررہے ہیں۔ حالاں کہ پاکستان کو دشمن نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا خود یہاں کے حکمرانوں نے پہنچایا ہے۔ لیکن حقیقت چھپانے کے لیے کہتے ہیں کہ سابقہ حکمران کرپٹ تھے۔ گردش ایام نے سارے سابقہ حکمرانوں کو موجودہ بنا ڈالا اور موجودہ حکمران سابق ہوگئے۔ اب سب کی ایک ہی رٹ ہے کہ سابق حکمرانوں نے کرپشن کی… یعنی صرف اس معاملے میں یہ سب سچ بول رہے ہیں۔