دعوئوں نہیں… دعوت کے پیچھے چلیں

829

ہمیں پاکستانی عوام سے نہیں خواص سے شکوہ ہے۔ جن کا کام عوام کی ذہن سازی کرنا ہے۔ نظریہ ٔ پاکستان یعنی نفاذ اسلام کے لیے رائے عامہ ہموار کرنا ہے وہ پروپیگنڈے میں بہہ جاتے ہیں اور اتنے ہلکے نکلتے ہیں کہ تصور سے باہر ہے۔ انہیں کبھی جنرل ضیا الحق اچھے لگنے لگتے ہیں، کبھی بھٹو بھی اچھے لگنے لگے تھے۔ بے نظیر بھٹو میں بھی خوبیاں تلاش کرلی تھیں۔ نواز شریف میں بھی اور جنرل پرویز مشرف میں بھی خوبیاں نکال لی گئیں۔ سارا زور ترقی، معیشت، زرمبادلہ، برآمدات اور صنعتوں اور کاروبار، سڑکوں ڈیموں، موٹر ویز پر رہتا ہے یا غیر ملکی قرضے لانے پر مسابقت ہوتی ہے، ہمارا ان سب کے بارے میں ایک ہی خیال ہے کہ پہلے یہ لوگ پرانی شراب کے لیے نئی بوتل لاتے تھے اور لوگ بیوقوف بن جاتے تھے لیکن اب عوام کو بیوقوف بننے کی عادت ہوگئی ہے۔ شاید مزا بھی آتا ہے اس لیے اب بوتل بھی پرانی اور شراب بھی پرانی، سب چلتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کل یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ بے چارہ ایک ڈیڑھ سال اور حکومت میں رہ جاتا تو کیا ہوتا۔ اتنے اچھے اچھے کام تو کیے ہیں پھر پانچ سال پورے ہونے پر فیصلہ کیا جاتا۔ شاید بہت سے لوگ ہماری طرح حالات کو نہیں دیکھ پاتے بلکہ دیکھتے ہیں مگر چپ رہتے ہیں۔ آج ہم یاد دلاتے ہیں عمران خان نے امریکا کو چیلنج کردیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اقوام متحدہ میں تقریر کردی۔ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اسلاموفوبیا کا دن منالیا۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ اور لاکھوں کشمیریوں کی قربانیوں کے جواب میں آدھا گھنٹہ خاموشی صرف دو مرتبہ جمعے کے دن اور بس۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا۔ لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا والی بات پر غور کریں۔ امریکا مخالف بیانیہ بھٹو پہلا لیڈر تھا اقوام متحدہ میں زبردست تقریر کی تھی۔ کسی کو اس پر اعتراض تھا لیکن یہی بھٹو پاکستان میں لیڈر بنے اور ملک کا اقتدار بڑی بھاری قیمت پر انہیں دیا گیا۔ یہ سب کون کررہا تھا؟ بھٹو ہی کے ذریعے ایوب حکومت کو ختم کیا گیا۔ پھر بھٹو صاحب کو 6 سال گزرنے پر ضرورت نہیں رہی یا قد اونچا ہونے پر ہٹادیا گیا۔ جنرل ضیا الحق آگئے۔
جنرل ضیا الحق آگئے… یا منصوبے کے تحت لائے گئے۔ کچھ چیزیں قابل غور ہیں۔ 1977ء میں جنرل ضیا آئے۔ 1979ء میں روس افغانستان میں داخل ہوا پاکستان میں مزاحمت کی پشت پناہی کے لیے کوئی ایک فرد درکار تھا اسمبلی کا جھمیلا نہیں چاہیے تھا۔ تو جنرل صاحب آگئے۔ اور ضیا الحق صاحب نے بھی اقوام متحدہ میں شاندار تقریر کردی۔ ایسا بھی کبھی نہیں ہوا تھا۔ نظام مصطفی کے دعویدار وہ تھے، پاکستان میں اسلام اور نظریہ ٔ پاکستان کے دشمنوں کے لیے زمین تنگ کرنے کا وہ اعلان
کرتے رہے۔ اور طلبہ تنظیموں پر پابندی بھی لگادی۔ سیاسی جماعتوں کے ٹکڑے بھی کیے، مسلم لیگیں، جے یو آئی، جے یو پی اس کی مثالیں ہیں۔ جماعت اسلامی پر بھی حملہ کیا گیا۔ وہ تو خیر ہو سید مودودیؒ کی کہ انہوں نے ایسا زبردست نظام بنایا تھا کہ بچ نکلے۔ جنرل ضیا نے اسی طرح کئی کام کیے جو پہلے نہیں ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ میں یاسر عرفات کو مخاطب کیا۔ اے ابوعمار تم پر ظلم کس نے کیا… اور فلسطینیوں کی حمایت اس طرح کبھی نہیں کی گئی تھی یہ اور بات ہے کہ ان پر الزام تھا کہ اس بریگیڈکی قیادت بھی جنرل ضیا کررہے تھے جو فلسطینیوں پر مظالم میں حصہ دار تھی۔ لیکن قوم کو صرف تقریر پر واہ واہ سنائی گئی۔ 1965ء میں ایوب خان کی تقریر، 1971ء میں بھٹو کی تقریر، 2020ء میں عمران خان کی تقریر اور جنرل پرویز کی تقریریں، لیکن نتیجہ…؟؟؟ ایک زمانے میں جنرل حمید گل امریکا مخالف تقریریں کرتے رہے، لیکن انہیں اس کے لیے ریٹائرمنٹ کا انتظار کرنا پڑا۔ کیوں کہ صومالیہ میں امریکی فوجیوں کی حفاظت کی ذمے داری ان کی رہی۔ پاکستان میں کشمیر اور معاشی ترقی کا بیانیہ نواز شریف کو ملا اور خوب ملا، موٹر وے، یلو کیب، صنعتیں، سڑکیں، وغیرہ… عوام کی ذہنی آبیاری یا میڈیا کے ذریعے انہیں مسحور کرنے والوں نے کئی سال نواز شریف کو قوم کے دماغوں پر مسلط رکھا۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا نواز شریف کو جنرل پرویز نے نکال دیا لیکن وہ پھر آگئے اور باجوہ نے نکال دیا اور اب وہ پھر آگئے یا آنے والے ہیں۔ ایسا بھی پہلے نہیں ہوا۔ نہیں، بلکہ پاکستانی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے وہ سب پہلے بھی اسی طرح ہوتا رہا ہے۔
جنرل پرویز کو ایوب خان والے فارمولے کے تحت احتجاج، مارچ، ہنگاموں وکلا سب کو ملا کر ہٹادیا گیا۔ لیکن قوم کو جس کے
بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ ٹین پرسنٹ اور ہنڈرڈ پرسنٹ ہے اس کو ملک کا اعلیٰ ترین منصب دے دیا گیا۔ انہیں باعزت طریقے سے پانچ سال پورے کرنے کے بعد پھر مسلم لیگ کو موقع دیا گیا۔ پتا نہیں مسلم لیگ کا مسئلہ کیا ہے اس کے سربراہ نواز شریف کو پھر نکال دیا گیا اور اب پھر بلالیا گیا۔ پتا نہیں اسے کیا کہا جائے بار بار کیوں آجاتے ہیں یا لائے جاتے ہیں۔ اب آجائیں شکوے کی طرف عمران خان نے کرپشن کے خلاف اعلان جہاد کیا۔ عمران خان نے ملک کو ریاست مدینہ جیسا بنانے کا اعلان کیا۔ ایاک نعبد وایاک نستعین کہہ کر تقریر کرتا ہے (اھدنا الصراط المستقیم نہیں کہتا) امریکا کو ایبلسوٹلی ناٹ کہہ دیا۔ خط کے ذریعے سازش ہوگئی۔ ورنہ… ہمارا ان معصوم لوگوں سے سوال ہے کہ پھر ہم جنرل ضیا الحق کی پوجا کیوں نہ کریں جو اقوام متحدہ میں قاری عبیدالرحمن کو لے گئے تھے۔ ہم دلیری پر بھٹو کی پرستش کیوں نہ کریں۔ ہم انگریزی میں تقریر پر بے نظیر کو لیڈر کیوں نہ بنائیں۔ ہم موٹر ویز بنانے پر نواز شریف کو قائد کیوں نہ مانیں۔ ایک جائزہ لے لیں کس نے کتنا بڑا کام کیا۔ اس کے کام کی بنیاد پر اس کی پیروی اور پرستش کی جائے۔ جنرل ایوب نے صنعتی انقلاب برپا کیا۔ (یہی کہا جاتا ہے)۔ وہ ملک کو جاپان کے برابر لے آئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا۔ اور انہوں نے بھی کلمہ پڑھ کر 1965ء میں تقریر کی تھی۔ اسلامی ٹچ بھی آگیا تھا۔ نہیں اس سے بڑھ کر آگے دیکھیں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اسلامی سربراہ کانفرنس کرائی، جمعے کی چھٹی دی، شراب پر پابندی لگائی، آئین دیا اور سب سے بڑھ کر قادیانیوں کو کافر قرار دیا۔ اس خدمت پر تو وہ تمام حکمرانوں سے بلند قامت بن گئے۔ تو کیا قوم بھٹو کی پیروی کرنے پر راضی ہے۔ بھٹو کی پارٹی میں شامل ہوجانا چاہیے، ان لوگوں کو جو عمران خان کی تقریر اور زبانی دعوئوں سے متاثر ہو کر اس کے دیوانے ہوئے جارہے ہیں۔ بھٹو کے بعد جنرل ضیا آئے، انہوں نے پاکستان کو ایٹم بم دیا… تو کیا ضیا الحق کے پیرو کار بن جائیں۔ صرف پرویز مشرف ہیں جن کے حصے میں کوئی خیر کا کام نہیں آیا۔ وہ تو مخلوط میریتھن کے حامی تھے، خواتین کے حقوق کے علمبردار تھے، جہاد کو دہشت گردی بنا گئے۔ عافیہ صدیقی کو بیچ دیا، کشمیر پر تھرڈ آپشن کی بات کرگئے، اسرائیل کی
ہمدردی کرتے رہے۔ لہٰذا ان کا ہمنوا عوام میں بھی نہیں ہے اور خواص میں بھی بمشکل ملتا ہے۔ ان کے بعد آنے والے بھٹو کے وارث رہے یا اب پی ٹی آئی کو اقتدار دیا جس کے لیڈر نے وہ باتیں کیں جن کا ذکر اوپر گزرا۔ اگر ان کارناموں اور کاموں کی فہرست بنائی جائے تو پوری پاکستانی قوم کو بالاتفاق عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے کی خدمت پر ذوالفقار علی بھٹو کو بابائے قوم ثانی قرار دینا چاہیے۔ لیکن ایسا ہے نہیں، بھٹو نے جو کام کیے ضیا الحق نے جو کام کیے ان کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اللہ جس سے چاہتا ہے اپنا کام لے لیتا ہے۔ اس فہرست کے مطابق تو بھٹو اول نمبر پر، ضیا الحق دوسرے نمبر پر، ایوب خان تیسرے پر اور نواز شریف اور بے نظیر چوتھے اور پانچویں پر اور پھر زبردستی عمران خان کو ڈالنا ہے تو پانچویں یا چھٹے وہ ہیں۔ ہم جن خواص کی بات کررہے ہیں وہ سید مودودیؒ اور جماعت اسلامی کے پیرو کار رہے ہیں، اگر انہیں کسی اور میں زیادہ اچھائی لگتی ہے تو کھل کر اس کی پارٹی میں شامل ہوجائیں، ان کا حق ہے، لیکن ایک پائوں ایک کشتی میں اور دوسرا دوسری میں۔ یہ رویہ غلط ہے۔ کسی کی رائے کو زبردستی مسترد نہیں کیا جاسکتا، ہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، لیکن اپنی رائے کے مطابق عمل بھی ضروری ہے۔ جماعتی بھائیوں اور بہنوں واٹس ایپ کے چیتوں سے بھی گزارش ہے کہ خدا کے واسطے اپنا اصل کام کریں۔ قوم کو خوش خبری دیں، دعوئوں کے نہیں اپنی دعوت کے پیچھے چلیں۔ پیغام پہنچائیں اور ڈرائیں، یہی ذمے داری انبیا پر تھی، کسی نبی سے خدا نے نتیجہ نہیں مانگا سب سے یہی کہا کہ پیغام پہنچائو اور ڈرائو… حکومت دینا اقتدار پر متمکن کرنا یہ سب انعامات اللہ کی مرضی سے ملتے ہیں۔ اپنے کام میں واپس لگ جائیں لوگوں تک رب کا پیغام پہنچائیں۔ اس پیغام کے پہنچانے پر ہی آخرت کی بخشش کا دارومدار ہے۔ نتیجہ اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ سید مودودیؒ نے تو یہی پیغام دیا تھا کہ ہم دہاڑی کے مزدور ہیں، ہماری محنت کے نتیجے میں عمارت کیا بنتی ہے ہمیں اس سے غرض نہیں ہم تو اللہ کے حکم کو بجا لاتے ہیں۔ یہ مفروضوں، نتیجہ خیز کام اور دوسرے کے لوگوں کے اپنی حمایت میں خود بخود آجانے کا خواب وغیرہ دیکھنا چھوڑ دیں بلکہ واٹس ایپ ہی چھوڑ دیں۔ محلے میں نکلیں گھر گھر اپنی دعوت پہنچائیں اور ان لوگوں کے غم و خوشی کا حصہ بنیں جو آپ کے اردگرد ہیں۔ نتیجہ بھی ملنے لگے گا۔