…لانگ مارچ کی 25 تاریخ۔ اتفاق یا

460

سب لوگ آپ کو اسلام آباد ڈی چوک بلارہے تھے لیکن ہم آپ کو دنیا کے کسی اور چوک کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ پوری دنیا میں اتفاقات ہی تو ہورہے ہیں یہ اتفاقات کی دنیا ہے۔ یہ قاہرہ کا رابعہ عدویہ ہے۔ 2013ء ہے یہ کیوں یاد آیا اس کی بھی وجہ ہے۔ یہ 14 اگست 2013ء ہے۔ اسلام آباد میں شام ہوتے ہی ایک پراسرار گاڑی میں سوار شخص اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ قومی اسمبلی کے قریب پہنچ گیا۔ احاطے میں موجود اس شخص کے دونوں ہاتھوں میں اسلحہ تھا۔ اس کی بیوی کے پاس بھی اسلحہ تھا۔ شام چھے بجے سے رات بارہ ایک بجے تک قوم ٹی وی دیکھتی رہی۔ ٹی وی چینل ہمیں بتارہے تھے کہ اصغر بلوچ نامی شخص قومی اسمبلی پر قبضہ کرنا چاہتا تھا، لوگوں کو یرغمال بنا کر اسمبلی پر قبضہ کرنا اس کا مشن تھا۔ سادہ لوح کروڑوں لوگ ٹی وی چینلوں کی مدد سے ایک شخص کے یرغمالی تھے اس کی مدد سے مداریوں نے پوری قوم کو یرغمال بنا رکھا تھا لیکن جب کام ہوگیا تو چند لمحوں میں اصغر بلوچ قابو میں آگیا لیکن اس کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت سو گئی۔ کچھ لوگ جو جاگ رہے تھے وہ بہت قلیل تھے انہیں پتا چلا کہ مصر کے رابعہ عدویہ میں محمد مرسی کی حمایت میں دھرنا دینے والوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے ہیں اور چار ہزار کے لگ بھگ لوگ شہید ہوگئے ہیں۔ اصغر بلوچ کون تھا کہاں سے آیا کہاں گیا۔ کسی کو نہیں معلوم اس کی خدمات بہرحال بہت تھیں۔ پاکستانی قوم کو مصر کے حالات سے بے خبر رکھنے کے ڈرامے میں مرکزی کردار تھا۔ ہوسکتا ہے یہ ڈراما محض اتفاق ہو لیکن ایسے اتفاقات کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ابھی تو اس فہرست پر بات کرنے کا وقت نہیں لیکن ایک اور اتفاق سامنے آیا ہے جو بڑا حیرت انگیز ہے۔ لوہا اتنا گرم ہے کہ اس پر چوٹ مارنے والے کے جل جانے کا بھی خدشہ ہے لیکن وقت تو یہی ہے کہ قوم کو بتایا جائے کہ حقائق کیا ہیں۔
رابعہ عدویہ پر چڑھائی سے تین دن قبل پولیس نے کہا کہ ہم رابعہ عدویہ پر دھاوا بولنے کے لیے تیار ہیں۔ دو دن قبل صدر مرسی کو گرفتار کرلیا گیا اور 14 اگست کو رابعہ عدویہ پر صفائی کا بدترین مظاہرہ ہوگیا۔ دنیا بھر میں خاموشی رہی۔ پاکستان میں شاید ردعمل ہوتا لیکن اس کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس مرتبہ 23 مئی تک کسی کو نہیں معلوم تھا کہ 25 مئی لانگ مارچ کی تاریخ ہے۔ یہ بھی محض اتفاق ہوسکتا ہے کہ بھارتی عدالت عظمیٰ نے اعلان کیا کہ 25 مئی کو حریت رہنما یاسین ملک کے خلاف جعلی مقدمے میں انہیں سزا سنائی جائے گی۔ ان دونوں اعلانات کا بیک وقت آنا اور اپنے اپنے وقت پر تماشا ختم ہونا افسوسناک اتفاق لگ رہا ہے۔ سابق وزیراعظم نے گرج دار آواز میں اعلان کیا کہ 25 مئی کو ہم اسلام آباد کے ڈی چوک میں جمع ہوں گے۔ 20 لاکھ لوگ میرے ساتھ ہوں گے۔ اور 25 مئی کو یہ 20 لاکھ لوگ اسلام آباد پہنچ گئے، پورا دن میڈیا لوگوں کو خبر دیتا رہا کہ فلاں مقام میدان جنگ بن گیا ہے، فلاں جگہ اس قدر شیلنگ ہورہی ہے کہ گزرنا محال ہے، واقعی ایسا ہی تھا۔ شیلنگ کیوں ہورہی تھی، یہ سندھ پولیس ہی بتا سکتی ہے۔ اسلام آباد کی خبریں بھی اسی طرح کی تھیں، 20 لاکھ لوگ سکڑ کر کم ہوگئے۔ لیکن قوم کے ساتھ سنگین ہاتھ ہوگیا۔ حریت رہنما یاسین ملک کو عین اسی روز عمر قید کی سزا ہوگئی۔ پاکستانی ٹی وی چینلوں کی بریکنگ نیوز دھرنا لانگ مارچ ملک بھر کے حالات صبح سے شام تک زیر بحث رہے اور قوم کو تو نہیں بہت قلیل لوگوں کو یاسین ملک کے بارے میں بھی معلومات ہوسکیں۔ صبح سب کو پتا چلا کہ انہیں عمر قید ہوگئی ہے۔
اسلام آباد کے اصغر بلوچ کے ڈرامے کو ڈراما کہنا بڑا آسان تھا کیوں کہ اس کے پیچھے مشتعل ہجوم نہیں ہے لیکن یہاں ایک ہجوم کچھ سوچے بغیر ٹرک کی لال بتی ’’حقیقی آزادی‘‘ کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ ان دونوں اتفاقات سے قطع نظر پاکستانی قوم کہاں جارہی ہے۔ اسے روز تماشے دکھائے جاتے ہیں اور عوام ابھی تک کالانعام ہیں۔ انہیں جس طرف ہانکا جاتا ہے اس طرف چل پڑتے ہیں۔ ملک بھر سے لاکھوں لوگوں کے سمندر کو اسلام آباد ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت اور عدالت عظمیٰ میں پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان کی ایچ نائن پارک میں جلسے کی درخواست میں زمین آسمان کا فرق ہے، لیکن اب کوئی نہیں پوچھے گا کہ ہر صورت الیکشن کی تاریخ لینے کا اعلان کرنے والا ہمیشہ کی طرح یوٹرن لے کر کیوں چلا گیا۔ امریکا کو ایبسلوٹلی ناٹ کہنے والا اچانک کیوں ڈھیر ہوگیا۔ لیکن اس سوال کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ہم نے ابتدا میں دو واقعات کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ جڑے ہوئے دو بدترین اقدامات کا وہ ایسے ہی ہوسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے سمجھا۔ ممکن ہے یہ کوئی سازشی تھیوری نہ ہو۔ محض اتفاق ہو… لیکن دونوں کا نتیجہ ایک ہی نکلا یعنی قاہرہ میں چار ہزار لوگ روند دیے گئے اور دنیا سوئی رہی یا ٹی وی ڈراما ’’اسمبلی کا اغوا‘‘ دیکھتی رہی اور اب لانگ مارچ دیکھتی رہی، انسانوں کے سمندر کو اسلام آباد میں ڈھونڈتی رہی اور یاسین ملک کو سزا ہوگئی۔ مان لیتے ہیں کہ یہ اتفاق تھا۔ چھوڑیں سنجیدہ باتوں کو… بہت پہلے… بہت ہی پہلے 1973ء میں ہمارے اسکول کے استاد نے لطیفہ سنایا کہ ایک روز ڈھاکا میں بہت بڑا جلوس بیت المکرم چوک پر جمع ہوگیا۔ وہاں واقعی سمندر جمع ہوجاتا ہے۔ سب کا ایک ہی نعرہ تھا۔ شاید ایبسلوٹلی ناٹ کا بنگالی ترجمہ تھا۔ چولیے نا۔ نہیں چلے گا۔ بی بی سی کا نامہ نگار پہنچا اور پوچھا۔ کیا نہیں چلے گا۔ جواب ملا آمی جانے نا… مجھے نہیں پتا۔ اس رپورٹر نے تلاش کیا کہ بالکل شروع سے کون جلوس کے ساتھ ہے، ایک آدمی ملا اس سے پوچھا ان کو تم لائے ہو کہنے لگا کہ نہیں۔ میرا تو ہوٹل والے سے جھگڑا ہوگیا تھا اس نے ایک خراب نوٹ دیا تھا میں نے کہا نہیں چلے گا۔
اس نے کہا کہ چلے گا میں نے زور سے کہا کہ نہیں چلے گا۔ چولیے نا… اور اس نے مجھے دھکے دے کر باہر نکال دیا (اقتدار سے نہیں ہوٹل سے) اس کے بعد میں نے باہر سے نعرہ لگایا نہیں چلے گا۔ اور بیت المکرم کی طرف چل پڑا نوٹ کی خرابی کی وجہ سے پیدل تھا۔ میں تو دو تین نعرے لگا کر چپ ہوگیا لیکن یہ ہجوم مسلسل ڈی چوک … معاف کیجیے گا چولیے نا چولیے نا کہہ رہا ہے۔ اس لطیفے کو بھی اتفاق ہی سمجھیں تنقید یا طنز نہیں۔