موسمیاتی تبدیلی کا عالمی چیلنج

581

اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے چار اہم اشاریے 2021 میں اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ عالمی توانائی کا نظام انسانیت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ اشارہ اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی تنظیم نے اپنی ’’اسٹیٹ آف دی گلوبل کلائمٹ اِن 2021‘‘ رپورٹ میںکیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کی تعداد، سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور سمندری تیزابیت نے پچھلے سال نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں۔ اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹریس نے کہا ہے کہ یہ سالانہ جائزہ رپورٹ آب و ہوا کے خلل سے نمٹنے میں انسانیت کی ناکامی کا ایک مایوس کن منظر ہے۔ اس رپورٹ کے مندرجات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ عالمی توانائی کا نظام ٹوٹ چکا ہے جو انسانیت کو موسمیاتی تباہی کے قریب ترکررہاہے لہٰذا اس سے پہلے کہ موسمیاتی تبدیلی کا یہ سنگین بحران دنیا کو تباہی کے کنارے کھڑا کردے ہمیں حیاتیاتی ایندھن کی آلودگی کو ختم کرنے نیز اپنی توانائی کی ضروریات کو قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی کے عمل کو تیز تر کرنا ہوگا۔

زیر نظر رپورٹ میں واضح طور پر اس جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ انسان کی غیرفطری سرگرمیاں زمین، سمندر اور فضاء میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے جس سے ماحولیاتی نظام پر نقصان دہ اور دیرپا منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2021اب تک ریکارڈ کیے گئے گرم ترین برسوں میں سے ایک تھا جس میں اوسط عالمی درجہ ٔ حرارت صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح سے تقریباً 1.11 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 2015 کے پیرس معاہدے میں شریک ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کو 1850ء اور 1900ء کے درمیان ناپے جانے والی اوسط سطح سے 2C اور اگر ممکن ہو تو 1.5C تک محدود کیا جائے گا۔ اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیے بناء کوئی چارہ نہیں ہے کہ انسانوں کی طرف سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسوں سے پیدا ہونے والی گرمی آنے والی نسلوں کے لیے کرہ ٔارض کو گرم کرنے کا باعث بنیں گی۔ ماہرین کی جانب سے باربار یہ انتباہ دیا جارہا ہے کہ سطح سمندر میں اضافہ، سمندر کی گرمی اور تیزابیت کا عمل آنے والے برسوں میں اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ماحول سے کاربن کو ہٹانے کے ذرائع ایجاد نہ کیے جائیں۔ یاد رہے کہ گرین ہاؤس گیسوں کا ارتکاز 2020 میں عالمی سطح کی ایک نئی بلندی پر پہنچ گیا تھا جب کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) کا ارتکاز عالمی سطح پر 413.2 فی ملین (ppm) تک پہنچ گیا تھا یہ بلندی صنعتی انقلاب سے پہلے کی سطح کا 149 فی صد تھا۔

اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ وہ 2021 اور 2022 کے اوائل میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی شرح میں ماضی کے برعکس کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق عالمی اوسط سمندر کی سطح 2021 میں ایک نئی ریکارڈ بلندی پر پہنچ گئی تھی جو 2013 سے 2021 کے دوران اوسطاً 4.5 ملی میٹر سالانہ بڑھ رہی تھی۔ حالانکہ 1993 اور 2002 کے درمیان اس شرح میں ہر سال 2.1 ملی میٹر کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا جس سے پیش آمدہ متوقع خطرات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سمندر کی گرمی گزشتہ سال ریکارڈ بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی جو 2020 کی قدر سے زیادہ تھی۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کے حوالے سے یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ اگر یہی حالات رہے تو سمندر کا 2,000 میٹر کا اوپری حصہ یا سطح سمندر مستقبل میں مزید گرم ہوتا رہے گا یہ ایک ایسی تبدیلی ہوگی جو صد سالہ سے ہزار سالہ اوقات میں بھی ناقابل واپسی ہوگی۔ سمندر انسانیت کی لاپروائی بلکہ خود غرضی کی وجہ سے CO2 کے سالانہ اخراج کا تقریباً 23 فی صد فضا میں جذب کرتا ہے۔ جب کہ یہ ماحول میں CO2 کی تعداد میں اضافے کو سست کرتا ہے اور CO2 سمندری پانی کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سمندری تیزابیت میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل نے بہت زیادہ اعتمادکے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ کھلے سمندر کے سطح کی تیزابیت کم از کم گزشتہ 26,000 سال سے سب سے زیادہ ہے۔

زیر بحث رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹارکٹک اوزون ہول 2021 میں غیر معمولی طور پر گہرا اور بڑا سوراخ نوٹ کیا گیا ہے جس کا زیادہ سے زیادہ رقبہ 24.8 ملین مربع کلومیٹر تک پہنچ گیا ہے جو ایک مضبوط اور مستحکم قطبی بھنور سے چلایا جاتا ہے۔ انسانیت کو درپیش اس عظیم چیلنج کو مدنظر رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوٹریس کا یہ کہنا بجا اور بروقت ہے کہ اس سے پہلے کہ ہمیں بہت دیر ہو جائے ہمیں قابل تجدید توانائی کی جانب تیزی سے منتقلی کے لیے پانچ اقدامات فی الفور اٹھانے ہوں گے جن میں حیاتیاتی ایندھن کی سبسڈی ختم کرنے، قابل تجدید توانائی میں تین گنا سرمایہ کاری اور قابل تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی بنانا قابل ذکر ہیں۔ انتونیو گوٹریس کی اس بات میں نہ تو کوئی شک ہے اور نہ ہی کوئی اس سے اختلاف کرسکتا ہے کہ اگر پوری دنیا ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے مل کر نمٹنے کا عزم کرلے تو قابل تجدید توانائی کی تبدیلی کے ذریعے 21ویں صدی کو امن کی صدی کے عالمی منصوبے میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔