متحدہ، پی پی اور پی ٹی آئی نے کراچی کو صرف سونے کی چڑیا سمجھ کر لوٹا

168

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) متحدہ قومی موومنٹ، پی پی پی اور پی ٹی آئی نے کراچی کو صرف سونے کی چڑیا سمجھ کر لوٹا‘ ایم کیو ایم نے شہر کو لاوارث بنایا‘ ہمیشہ اپنے مینڈیٹ کو فروخت کرکے کراچی کو ترقی سے محروم رکھا‘ عمران خان نے اپنے دور اقتدار میں کوئی نیا منصوبہ نہیں دیا‘ کھوکھلے نعروں سے عوام کو گمراہ کیا ‘سانحہ12 مئی کے ذمے داران آج بھی قانون کی گرفت سے باہر ہیں‘ مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس موجود ہے۔ان خیالات کا اظہار سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم الزماں صدیقی، معروف صحافی، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل اور کراچی پریس کلب کے سابق سیکرٹری مظہر عباس، وکلا برادری کے معروف رہنما اور سابق صدر کراچی بار ایسوسی ایشن نعیم قریشی ایڈووکیٹ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کی کونسل میں جماعت اسلامی کی نمائندگی کرنے والے سابق پارلیمانی لیڈر و معروف سیاسی وسماجی شخصیت محمد جنید مکاتی نے جسارت کے اسسوال کے جواب میں کیا کہ ’’پورے ملک کو پالنے والا کراچی لاوارث کیوں ہے؟‘‘فہیم الزماں صدیقی نے کہا کہ اس لاوارث شہر کی تباہی و بربادی میں کراچی کے جتنے بڑے نام ہیں وہ سب اس میں برابر کے شریک ہیں ‘ اس شہر سے منتخب ہونے والے لوگوں نے کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھ کر لوٹا اور اپنے محلات بنائے ہیں‘ کم و بیش ہر حکمران نے کراچی کو اپنے ذاتی سیاسی، گروہی اور جماعتی مفادات کے لیے استعمال کیا ہے جبکہ اس شہر کی منصوبہ بندی اور ماسٹر پلان پر کوئی توجہ نہ دی گئی ‘ کراچی آج بھی لاوارث نظر آتا ہے‘ کراچی کو کوئی بھی سیاسی جماعت اون کرنے کو تیار نہیں ہے‘ کراچی منی پاکستان اور معاشی حب ہے جو پورے ملک کو چلا رہا ہے‘ قدرتی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے عالمی تجارتی راہداری پر واقع ہے۔ اس کی ایک اہمیت یہ ہے کہ یہ جنوبی ایشیا، وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ہے لیکن اس کی یہ اہمیت اس کی بدقسمتی بن گئی اور اسے ایک منظم منصوبے کے تحت تباہ کیا گیا ہے‘ پہلے کراچی امن اور روشنیوں کا شہر تھا۔ مظہر عباس نے کہا کہ بدقسمتی سے کراچی کا کوئی والی وارث نہیں ہے‘ نہ کراچی والے اور نہ ہی کراچی سے باہر والے‘ تو پھر کراچی کیسے ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے‘ سیاسی جماعتیں سیاست بھی اسی پر کرتی ہیں لیکن بد قسمتی سے اب تک شہر کراچی کو چلانے والا کوئی ملا ہی نہیں ہے،اس شہر کے رہنے والوں نے سیاستدانوں کوووٹ، نوٹ اور سب کچھ دیا ہے لیکن انہوں نے کراچی کی ترقی کے کچھ نہیں کیا ہے بلکہ لوگوں سے کروڑوں روپے بٹورے ہیں‘ جو شہر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے اگر اس ریڑھ کی ہڈی کو توڑ کر رکھ دیا جائے گا تو پھر اس سے پورے ملک کا نقصان ہو گا‘ اس شہر نے تو سب کوووٹ دیا‘ کیا ایم کیو ایم ، کیا پی پی پی اورکیا پی ٹی آئی مگر کسی کی توجہ اس شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے نہیں رہی ہے‘ وفاقی، صوبائی اور ایڈمنسٹریٹر کوئی بھی کراچی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں‘ یہ شہر ملک کے محصولات کا 70 فیصد اور سندھ حکومت کو90 فیصد کما کر دیتا ہے‘ کیا کوئی دوسرا شہر ہے جو پورا ملک چلاتا ہو‘ کچھ معلوم اور کچھ نامعلوم لوگ آگئے اور کراچی کو کھا گئے‘ کراچی کے پرانے علا قے ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد، لیاری، ملیر، اورنگی ، کورنگی غرض یہ کہ نئے پرانے تمام علاقے تباہ ہوگئے ہیں‘ اس شہر کو اس لیے’ لاوارث‘ رکھا گیا ہے کہ اگر کوئی وارث ہوگا تو وہ خیال بھی رکھے گا‘ یہ شہر ہمیشہ حکمرانوں کی عدم توجہی کا شکار رہا ہے‘ چند دہائی پہلے والا کراچی پتا نہیں کہاں گم ہوگیا ہے‘ کراچی کی آبادی ساڑھے 3 کروڑ سے زاید ہے‘ پاکستان کا دل ، میگا سٹی، میٹرو پولیٹن سٹی، معاشی حب، روشنیوں کا شہر اور نہ جانے کیا کیا نام شہر قائد کو ملے‘ اب خود اس کا وجود ایک کھنڈر سے کم نہیں ہے۔نعیم قریشی ایڈووکیٹ نے کہا کہ کراچی ایسا لاوارث شہر ہے جہاں 12مئی کو 50 سے زاید افراد لقمۂ اجل بن گئے ‘ اس سانحہ کو 15برس گزرجانے کے بعد بھی شرپسند عناصر قانون کی گرفت سے باہر ہیں‘ اُس وقت وسیم اختر صوبائی وزیر داخلہ تھے اور ایم کیو ایم کے دہشت گردوں نے پورے شہرکو یرغمال بنا کر بیدردی سے لوگوں کو قتل کیا ‘ تمام الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا پر حملہ کیا گیا‘ وسیم اختر کی سرپرستی میںخصوصاً ’’آج ٹی وی‘‘ کے آفس پر ایم کیو ایم کے دہشت گرد کئی گھنٹے تک فائرنگ کرتے رہے‘ وہاں پر موجود املاک کو نقصان پہنچایا گیا لیکن اس لاوارث شہر کے رہنے والے آج بھی انصاف کے منتظر ہیں‘ اس واقعے کے7 سے زاید مقدمات درج ہوئے جن میں وسیم اختر اور رکن سندھ اسمبلی کامران فاروقی سمیت 55 سے زاید ملزمان نامزد کیے گئے‘ کئی بار کیس چلا مگر 15 برس گزرنے کے باوجود آج تک فائنل فیصلہ نہ ہوسکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس شہر کو تمام سیاسی جماعتوں نے مل کرلوٹا ہے‘ ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف سمیت جتنی حکومتیں آئی انہوں نے کراچی کی ترقی کے لیے کچھ نہیں کیا ہے اور نہ کوئی آئندہ امید ہے کہ یہ سیاسی جماعتیں کراچی کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردارادا کر سکیں گی۔محمد جنید مکاتی نے کہا کہ پورے ملک کو پالنے والے کراچی آج لاوارث کیوں ہے، میرے نزدیک اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کراچی سے جو لوگ ہمیشہ منتخب ہوئے ہیں انہوں نے کراچی کے عوام کے مینڈیٹ کو فروخت کیا ہے‘ ایم کیو ایم 32 برس سے کراچی پر مسلط اور ہر حکومت کا حصہ رہی ہے لیکن آج تک کوئی ٹرانسپورٹ، سرکلر ریلوے اور پانی کا منصوبہ نہیں دیا ‘ ایم کیو ایم نے شہریوں کو اپنے32 برس کے دور اقتدار میں ایک بوند پانی کا منصوبہ بھی نہیں دے سکی‘ کراچی کو اگر کسی نے پانی فراہم کیا ہے تو وہ حب ریور سے عبدالستارافغانی نے 100 ملین گیلن پانی فراہم کیا ہے‘ اس کے بعد کے تھری منصوبے کے ذریعے مرحوم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے100ملین گیلن پانی فراہم کیا ہے‘ اس کے بعد اور اس سے قبل بھی ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے میئر آئے اور دیگر جماعتوں کے بھی ایڈمنسٹریٹرز آئے لیکن کسی نے بھی کراچی کی ترقی کے لیے کوئی کام نہیں کیا ہے‘کراچی کے ٹیکس سے لاہور میٹرو بس، راولپنڈی میٹرو بس، ملتان میٹرو بس اور پشاور میٹرو بس کے منصوبے بنتے ہیں‘ کراچی کے ٹیکس سے اگر نہیں بنتا تو کراچی میٹرو بس کا منصوبہ نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ انتخابات میں کراچی کے عوام نے پی ٹی آئی کو جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیے اور 14 ایم این ایز تحریک انصاف کے کراچی سے منتخب ہوئے لیکن انہوں نے بھی ایم کیو ایم کی طرح کراچی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا‘ گرین لائن بس منصوبہ جو سابق وزیراعظم نواز شریف کا منصوبہ تھا اس کو پی ٹی آئی اپنے ساڑھے 3 سالہ دور اقتدار میں مکمل نہیں سکی اور ابھی تک یہ منصوبہ نامکمل ہے‘ انہوں نے کراچی کو کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں دیاہے‘ اب کراچی کے عوام کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ان کو کراچی کے مینڈیٹ کے دعویدار ہمیشہ بیوقوف بناتے ہیں‘ عمران حکومت ختم ہونے کے بعد ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم سے مل کر حکومت بنائی ہے‘ یہ حکومت ایم کیو ایم کے ووٹوں سے بنی ہے‘ یہ وقت تھا جب ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہونے کے لیے کوئی ایسا معاہدہ کرتی جس سے کراچی کے عوام کو کوئی فائدہ پہنچتا لیکن ایم کیو ایم نے ایسا نہیں کیا ہے، نہ ہی کراچی کی مردم شماری کو مکمل کرنے کے لیے کوئی بات کی ہے اور نہ ہی ترقیاتی منصوبے کے حوالے سے کوئی معاہدہ کیا ہے‘ اسی ایم کیو ایم کی وجہ سے کراچی ہمیشہ سے ترقی کرنے سے محروم رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے کسی نے کام کیا ہے وہ صرف اور صرف جماعت اسلامی نے کام کیا ہے‘ نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ اور عبدالستار افغانی نے کام کیا ہے اور جماعت اسلامی کے جو لوگ جب بھی منتخب ہوئے ہیں انہوں نے کراچی کے لیے ہمیشہ آواز اٹھائی ہے اور عوام کی تکالیف اور دکھ درد میں ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں‘ جب کراچی میں گزشتہ سال شدید بارشوں کے بعد سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تو جماعت اسلامی اور الخدمت کے رضا کاروں نے لوگوں کو ریسکیو کیا ہے ‘ کورونا وبا کی وجہ سے لوگوں کی معاشی صورتحال خراب ہوئی تو جماعت اسلامی کے لوگوں نے رات کی تاریکی میں لوگوں کے گھروں میں اجناس فراہم کیے‘ اقتدار میں نہ ہونے کے باوجود جماعت اسلامی لوگوں کو ان کی دہلیز پر بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے کوشاں ہے‘ کے الیکٹرک کے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے والی واحد جماعت جماعت اسلامی ہے‘ نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی، کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی ناقص کارکردگی کا مسئلہ ہو یا بحریہ ٹاؤن کراچی میں لوگوں کی ادائیگیوں کا مسئلہ‘ جماعت اسلامی ہمیشہ ان کے خلاف سڑکوں پر نکلی ہے اور عوام کو ان کے حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد کی ہے ‘مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے‘ اگر اس کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے‘ کوٹا سسٹم کے خلاف جماعت اسلامی کھڑی ہوئی ہے‘ عوام کے ساتھ ہائوسنگ سوسائٹیز کی انتظامیہ جو ظلم کر رہی ہے ‘ ان متاثرین کے ساتھ صرف جماعت اسلامی موجود ہے اور اب تک جماعت اسلامی نے بحریہ ٹاؤن کے لوگوں کو پونے2 ارب روپے واپس دلوائے ہیں اور اب بھی اگر جماعت اسلامی کو عوام نے منتخب نہیں کیا تو کراچی کا یہی حال ہوگا بلکہ اس سے بدتر حال ہو جائے گا‘ کراچی کے عوام کے مسائل کا حل صرف جماعت اسلامی کے پاس موجود ہے‘ ان کے پاس باصلاحیت اور سلجھے ہوئے لوگ موجود ہیں‘ اب لوگوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔