روس مزید ڈرانے کے درپے

734

روس نے دنیا کے خطرناک ترین میزائل ’’سرمٹ‘‘ کا کامیاب تجربہ کیا ہے۔ یہ سب سے بڑا بیلسٹک میزائل ہے۔ اس میں بیک وقت پندرہ ایٹم بم رکھے جاسکتے ہیں۔ سرمٹ کے تجربے کے بعد دنیا بھر میں شدید خوف کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بڑی طاقتیں زیادہ پریشان ہیں کیونکہ اُنہیں صورتِ حال کی نزاکت کا زیادہ اندازہ ہے۔ یوکرین سے جنگ جاری ہے۔ ایسے میں روس کی طرف سے طاقت کا اضافی مظاہرہ دنیا کو یہ بتانے کے لیے تھا کہ مجھے ہلکا مت لینا، کچھ بھی کرسکتا ہوں اور کر گزروں گا۔ کیا روس کو تیسری عالمی جنگ کے چھڑ جانے کا خدشہ ہے؟ کیا وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں مغربی ممالک مل کر اُس پر حملہ نہ کردیں؟ امریکا سمیت متعدد مغربی ممالک اب یوکرین کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔ یوکرین کے پاس ہتھیار کم رہ گئے تھے جس کے نتیجے میں وہ ڈھنگ سے لڑنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ یوکرین کا اسلحہ خانہ مضبوط ہو چلا ہے۔
یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے سے قبل روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے ایک ٹی وی شو میں شرکت کی تھی جس میں اُن سے براہِ راست سوال کرنے کی اجازت تھی۔ ایک صاحب نے پوچھا کہ کیا آپ تیسری عالمی جنگ چھیڑیں گے یا یوکرین پر حملے کی صورت میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی تو ولادیمیر نے ہنستے ہنستے دلچسپ جواب دیا تھا کہ تیسری عالمی جنگ تو خود امریکا چھڑنے نہیں دے گا کیونکہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس جنگ میں شکست اُس کا مقدر ہوگی۔ ویسے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے کے بعد اب صدر پیوٹن کو جنگ میں ہار جیت کا مطلب زیادہ اچھی طرح سمجھ میں آگیا ہوگا۔
روس نے 2014 میں یوکرین کے علاقے کرائمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرلیا تھا۔ اب یہ علاقہ روس کا حصہ ہے۔ کرائمیا کو ہڑپ کرنے میں روس کو زیادہ پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ صدر پیوٹن نے سوچا ہوگا کہ یوکرین کو بھی اِسی طور ہڑپ کیا جاسکتا ہے۔ معاملہ اس کے برعکس نکلا۔ یوکرین نے زبردست ٹکر دی ہے۔ یوکرین پر روس کے حملے کو دو ماہ ہونے کو آئے ہیں۔ جب روس نے لشکر کشی کی تھی تب دنیا کا خیال تھا کہ یوکرین زیادہ دیر مزاحمت نہیں کرسکے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے یوکرین پر روس کا پرچم لہرانے لگے گا۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ یہ جنگ کب ختم ہوگی۔ یوکرین اب تک منہ دے رہا ہے۔ روسی افواج کو متعدد محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ تاثرات کی زبان سمجھنے والوں کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مسلط کی جانے والی جنگ جوں جوں طول پکڑتی جارہی ہے یوکرین کے صدر زیلنسکی کے چہرے کا تناؤ کم ہوتا جارہا ہے اور پیوٹن کے چہرے کا تناؤ بڑھتا جارہا ہے۔ زیلنسکی نے یہ کہتے ہوئے بھی قوم کو حوصلہ دیا ہے کہ اب مجھے دھماکوں اور سائرن کی عادت ہوچکی ہے۔ دوسری طرف صدر پیوٹن کے پاس صرف ایک آپشن رہ گیا ہے: طاقت کے مزید مظاہرے کے ذریعے ڈرانے، دھمکانے کا۔ انہوں نے سرمٹ میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد کہا کہ اب دشمنوں کو روس کے خلاف کچھ بھی کرنے سے پہلے انجام کے بارے میں اچھی طرح سوچ لینا چاہیے۔
سرمٹ میزائل دنیا کا سب سے بڑا اور سب سے طاقتور میزائل ہے۔ یہ بین البراعظم
ہے یعنی کسی بھی براعظم میں ہدف تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ میزائل ماسکو سے 8 ہزار کلو میٹر دور واقع مقام آرکانجیسک کے پلاتیسک کاسموڈروم سے چھوڑا گیا تھا اور اس کا ہدف 6 ہزار کلومیٹر دور تھا۔ روس نے دعوٰی کیا ہے کہ یہ میزائل 18 ہزار کلو میٹر تک مار سکتا ہے۔ عام طور پر ائر ڈیفنس سسٹم کے تحت کسی بھی میزائل کو ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی فضا میں تباہ کردیا جاتا ہے مگر روس کے سرمٹ میزائل کو دنیا کا کوئی بھی ائر ڈیفنس سسٹم تباہ نہیں کرسکتا۔ اس میزائل کی زیادہ سے زیادہ رفتار 16 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔ امریکا نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر جو ایٹم بم گرائے تھے اُن سے سو گنا طاقت والے ایٹم بم یہ میزائل لے جاسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میزائل کی مدد سے روس کوئی بھی جنگ جیت سکتا ہے یا یوں کہیے کہ کوئی بھی روس کو ہرا نہیں سکتا۔ دفاعی امور کے برطانوی ماہر ڈاکٹر پال کریگ رابرٹ کہتے ہیں کہ چار پانچ سرمٹ میزائل امریکا کے پورے مشرقی ساحل کی ریاستوں کو راکھ کا ڈھیر بنانے کے لیے کافی ہیں۔
سرمٹ میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد روسی خلائی ادارے روسکوموس کے سربراہ دمتری روگوجی نے کہا تھا کہ یہ میزائل معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) اور یوکرین کے حامیوں کے لیے ایک ’’تحفہ‘‘ ہے۔ صدر پیوٹن سمیت روس کی جتنی بھی نمایاں شخصیات سرمٹ میزائل کے بارے میں تمام باتیں دنیا کو خوفزدہ کرنے کے لیے کر رہی ہیں تاکہ وہ یوکرین کی مدد سے باز رہیں۔ یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے دنیا بھر میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ کے شروع ہونے کا خدشہ پیدا کردیا تھا۔ اب سرمٹ میزائل کا تجربہ ہتھیاروں کی نئی دوڑ واقعی شروع کرکے دم لے گا۔ جن ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیار نہیں وہ بھی اب زیادہ سے زیادہ ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ کوئی اُنہیں دبوچنے کے بارے میں نہ سوچے۔ یوکرین کے پاس (سوویت یونین سے ترکے میں ملے ہوئے) سیکڑوں ایٹمی ہتھیار تھے۔ اس نے مغربی طاقتوں اور روس کی طرف سے دفاع کی ضمانت ملنے پر یہ ہتھیار تلف کردیے۔ اب روس نے یوکرین کو نشانہ بنایا ہے تو دنیا بھر میں سوچا جارہا ہے کہ اپنی دفاعی صلاحیت کو ختم کرنا اور ردِ جارحیت سے دست بردار ہونا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ کہا جارہا ہے کہ اگر یوکرین کے پاس ایٹمی ہتھیار ہوتے تو روس اس پر حملہ کرنے کے بارے میں نہ سوچتا۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ایٹم بم کو امن کا ہتھیار کہا جاتا ہے یعنی یہ کہ اگر آپ کے پاس ایٹم بم ہو تو کوئی بھی آپ کے خلاف جارحیت کے بارے میں نہیں سوچ سکتا۔
روس نے یوکرین کے خلاف جنگ میں ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کی دھمکی دی ہے۔ صدر پیوٹن ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن والا بریف کیس ساتھ لیے گھوم رہے ہیں۔ کیا دنیا روس سے ڈرے گی؟ امریکا کہتا ہے کہ روس کے سرمٹ میزائل سے ہمیں کچھ فرق نہیں پڑتا۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا ایک مدت سے روس کے بہترین میزائلوں کا توڑ تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار روس کے پاس ہیں اور بہترین میزائل بھی روس ہی کے پاس ہیں۔ روس نے اب تک ایٹمی ہتھیار استعمال نہیں کیا تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ اس کا انجام اچھی طرح جانتا ہے۔ زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں دہشت گرد ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی کے لیے کوشاں ہیں۔
(احمد آباد کے اخبار ’’سندیش‘‘ کے لیے کرشن کانت انڈکٹ کا تجزیہ۔)