…وتلک الایام نداولھا

708

ایسا لگ رہا ہے کہ ہر چیز گھوم پھر کر دہرائی جارہی ہے۔ ہر کوئی ایک وقت آنے پر ایک پرانی بات دہراتا ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان جاتے جاتے ایک بڑی بات کہہ گئے کہ 16 ارب اور 8 ارب کرپشن والے کو ملک کا وزیراعظم بنانے والوں پر افسوس ہے۔ ظاہر ہے وہ نام تو نہیں لے سکتے تھے اس لیے اتنا ہی کہنا کافی ہے۔ دراصل یہ بات بڑی بات نہیں ہے بلکہ یہ وہی بات ہے جو ان کے انتخاب کے وقت ہارنے والے کہہ رہے تھے اور نواز شریف کا گروہ کہہ رہا تھا۔ وہ اس سے آگے بڑھ کر سلیکٹڈ اور سلیکٹرز کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ اب عمران خان میاں شہباز شریف اور ان کے اتحادیوں کے بارے میں ایسے ہی جملے استعمال کریں گے یہ سب کیا ہورہا ہے… دراصل یہ کچھ نہیں ہورہا ہے یہ اللہ رب العالمین نے بہت پہلے اپنی کتاب میں بتادیا تھا کہ: ہم یہ دن لوگوں میں باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ (آل عمران)
یہ پوری آیت اور اس کی تفسیر تو کسی اور واقعے کی جانب نشاندہی کرتی ہے۔ لیکن دنوں کا اُلٹ پھیر اور کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔ والے محاورے پاکستانی سیاست پر صادق آتے ہیں۔ ان ہی عمران خان کے بارے میں اپوزیشن سمیت پورا ملک سلیکٹڈ کا لفظ استعمال کرتا تھا اب وہ شہباز حکومت کو امپورٹڈ حکومت قرار دے رہے ہیں۔ اس کہانی کو سمجھنا ہے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ پر سرسری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ یہ جو لفظ اسٹیبلشمنٹ ہے بڑا محفوظ لفظ ہے، اسے استعمال کرنا ہر ایک کے لیے آسان ہے۔ جانتے سب ہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں اور یہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہے جو سیاسی پارٹیاں خود بناتی بھی ہے اور توڑتی بھی ہے۔ یہ مختلف پارٹیوں میں اپنے آدمی داخل کرتی ہے۔ اسمبلی میں پیسوں کے بل پر اپنے لوگ بٹھا کر رکھتی ہے جو الیکٹ ایبلز کہلاتے ہیں۔ درحقیقت یہی لوگ اپنی اپنی پارٹیوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ کبھی کبھی یہ ناراض گروپ بن کر نظر بھی آنے لگتے ہیں۔ کبھی کوئی اور گروپ بن جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہ اتنی ظالم چیز ہے کہ اپنے اور پرائے میں بھی تمیز نہیں ہوتی۔ یہ ایوب خان اور جنرل پرویز کو بھی بے دردی سے ہٹواتے ہیں ان کی حکومت ختم کرواتے ہیں کیوں کہ ایک حد سے آگے کسی کو نہیں جانے دیا جاتا۔
ذرا دنوں کے اس لوٹ پھیر کو دیکھیں لیاقت علی خان کے قتل کے ساتھ ہی یہ کھیل شروع ہوگیا تھا۔ ایک حکمران آیا دوسرا کسی کو نکال کر آجاتا پھر وہ نکالاجاتا اور تیسرا آجاتا تھا۔ پاکستانی سیاست کے اس دور کے بارے میں بھارتی سیاسی رہنما کا تبصرہ تھا کہ اتنی جلدی جلدی پاکستان میں حکومتیں تبدیل ہوتی ہیں اتنے دن میں تو گاندھی جی دھوتی نہیں بدلتے۔ اس بارے میں تو اس وقت گاندھی جی سے پوچھا جانا چاہیے تھا کہ انہیں دھوبی میسر نہیں تھا یا کوئی اور مسئلہ تھا ورنہ اتنی جلدی بھی حکومتیں نہیں بدلا کرتی تھیں۔ بہرحال یہ کھیل ایوب خان کے مارشل لا پر رکا اور تقریباً 11 برس بعد ان کو ایک سیاسی تحریک کے ذریعے اقتدار سے باہر کیا گیا۔ اس وقت بھی ایسے ہی اقدامات کیے گئے جیسے آج کل ہورہے ہیں،
نئے الیکشن ہوئے جن کو شفاف الیکشن کہا گیا لیکن الیکشن نتائج اور حکومت بننے تک ملک دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ یوں بھٹو صاحب اقتدار میں لائے گئے۔ لیکن چھے سال میں وہ کیا ہوا کہ انہیں بھی ایک احتجاجی تحریک کے ذریعے اقتدار سے باہر کردیا گیا۔ 1971ء میں جس فوج کا مورال ڈائون تھا اور اسے ہتھیار ڈالنے کا طعنہ دیا جاتا تھا اس نے 5 جولائی 1977ء کو اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ پھر 11 سال کا وقفہ آگیا اس عرصے میں بڑی محنت ہوئی پارٹیاں توڑی گئیں، گملے تیار ہوئے، پنیر بھی لگائی گئی، ان میں افراد پارٹیاں اور ہر قسم کی پیداوار ہوئی۔ اور جب جنرل ضیا گئے یا بھیجے گئے تو پیپلز پارٹی آگئی۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل پرویز مشرف کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی ہی کو اقتدار ملا۔ بہرحال جنرل ضیا کے دور کے اقدامات کے ثمرات قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ مسلم لیگ (ن)، الیکٹ ایبلز، شیخ رشید، اور لوٹا ازم… چھانگا مانگا وغیرہ بھی سب کو یاد ہوں گے۔
صدور کے فیصلے اور عدالتوں کی راتوں کو کارروائیاں ازخود نوٹسوں کے ذریعے حکومتوں کو گراتے اور بچانے کے اقدامات یہ نواز بے نظیر باریوں کے دوران بھی بار بار ہوا۔ نواز شریف اور جنرل جہانگیر کرامت، جنرل وحید کاکڑ کے جھگڑے اور تنازعات بھی سب کو یاد ہیں۔ بالآخر نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف کے تنازع نے ایک بار پھر 8 سال کے لیے فوجی اقتدار کی راہ ہموار کردی۔ اب اعلان ہوا ہے کہ اب ملک میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔ بلاول زرداری نے اسے تازہ ہواکا جھونکا کہا ہے۔ دوسری پارٹیاں کیوں چپ ہیں۔ (ن) لیگ، (ق) لیگ، ایم کیو ایم، پی ٹی آئی سب کو ردعمل دینا چاہیے تھا کہ یہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ لیکن یہ جھونکے تو پہلے بھی آتے رہے ہیں اب کیا تبدیلی آگئی ہے؟ ہاں ایک تبدیلی آگئی ہے کہ انتخابی نظام اسٹیبلشمنٹ کے مکمل کنٹرول میں ہے اور اب اس کے پاس تین چوائسز ہیں۔ (ن) لیگ، پی پی پی اور پی ٹی آئی۔ اسٹیبلشمنٹ چوتھا راستہ بھی اختیار کرسکتی ہے۔ کوئی نئی لیگ کوئی نئی پارٹی اچانک آگے آسکتی ہے۔ البتہ مشرف دور میں ایک تبدیلی آئی کہ مسلم لیگ پہلی مرتبہ سیاسی پارٹی بنی اور فوج کی حکمرانی میں بھی سیاست میں کھڑی رہی۔ اس کی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن کسی نہ کسی صورت وہ کھڑی رہی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اسے کھڑا کرنے میں ریاستی اداروں ہی میں سے کسی کا ہاتھ ہو… اور اب پی ٹی آئی اقتدار سے باہر آکر مزاحمت کررہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک جاسکتی ہے یا جائے گی۔ اگر وہ مزاحمت کرتی رہے تو اس کو آج کی مسلم لیگ ن دیکھ لینی چاہیے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کے پاس تین انتخاب اور کوئی بھی آپشن اختیار کرنے کے مواقع ہیں اس لیے براہ راست فوجی حکومت کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف پوچھتے رہے کہ مجھے کیوں نکالا، انہیں جواب تو نہیں ملا… لیکن معلوم سب ہے، اب عمران خان نے سوال کیا ہے کہ جس نے ایسا کون سا جرم کیا تھا کہ مجھے نکالا گیا ہے۔ نہیں بھائی جرم سب کا ایک ہی ہے۔ جیسے آئے یا لائے گئے تھے ویسے ہی نکالے بھی گئے۔ شکوے شکایت سے تو کچھ نہیں ہوگا۔ بس یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں کو لوٹ پھیر کر اسی طرح ان کے سامنے لاتا رہے گا۔ اس کے ملک میں اس کا نظام نافذ نہیں کریں گے تو یہ اس طرح مشکلات کا شکار رہیں گے۔ کسی کے ساتھ کچھ نیا نہیں ہورہا سب مکافات عمل کا شکار ہورہے ہیں۔