اب نیپال کی باری ہے؟

438

سری لنکا کے بعد اب نیپال میں تجوری کی تہہ دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت پریشان ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر گھٹتے جارہے ہیں۔ ایسے میں حکومت نے بینکوں سے کہہ دیا ہے کہ قرضے سوچ سمجھ کر دیے جائیں۔ بہت سی درآمدات روک دی گئی ہیں۔ معاشی امور کے ماہرین نے حکومت کو انتباہ کیا ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے فوری، موزوں اقدامات نہ کیے گئے تو بہت دیر ہوجائے گی اور ملک و قوم کو بہت کچھ جھیلنا پڑے گا۔ یہ انتباہ پورے ملک میں بدحواسی پھیلانے کا باعث بنا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے بعض بیرونی قرضوں کا بھگتان روک دیا گیا ہے جبکہ متعدد درآمدات بھی روک دی گئی ہیں۔ تجارتی بینکوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے قومی معیشت کو نقصان پہنچے یا جھٹکا لگے۔
نیپال میں مہنگائی مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ شیر بہادر دیوبا وزیر اعظم بنے تو نیپال میں بھارت نواز پالیسیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ چین اور نیپال کے تعلقات بھی بہت اچھے رہے ہیں۔ نیپال اس وقت چین اور بھارت کی رَسّا کشی کو برداشت کرنے پر مجبور ہے۔ وہ بھارت کو بھی نہیں چھوڑ سکتا اور چین کو نظر انداز کرنا بھی اْس کے بس کی بات نہیں۔ نیپال ایک زمانے تک بھارت کے لیے بغل بچہ بنا رہا۔ وہ خشکی سے گِھرا ہوا ملک ہونے کے باعث بہت سے معاملات میں بھارت پر منحصر رہنے کے لیے مجبور ہے۔ بھارت نے اس مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے نیپال کو اپنی غیر اعلانیہ ریاست (صوبے) کے طور پر برتا ہے۔ جب بھارت کا عمل دخل ناقابلِ برداشت ہوا تو نیپال نے کبھی پاکستان کی طرف دیکھا اور کبھی چین کی طرف۔ چین نے نیپال کی بھرپور مدد کی ہے اور اب بھی وہاں سرمایہ کاری سے پیچھے نہیں ہٹا ہے۔
نیپال کے تین سابق وزرائے خزانہ بشنو پوڈیل، سریندر پانڈے اور یْب راج کھاتی واڑا نے ایک مشترکہ بیان میں حکومت پر زور دیا ہے کہ معیشت کو مستحکم کرنے کے حوالے سے اقدامات میں تاخیر نہ کی جائے۔ نیپال میں زرِ مبادلہ کے موجودہ ذخائر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کے لیے کافی ہوں گے۔ اس وقت نیپال کی معاشی حالت وہی ہے جو ماہ قبل سری لنکا کی تھی۔ سری لنکن حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے اقدامات میں دیر کی تو اب معیشت بیٹھ گئی ہے۔ نیپال کے پاس وقت ہے مگر لاپروائی معاملات کو خراب کرسکتی ہے۔ جولائی 2021 میں نیپال میں زرِ مبادلہ کے ذخائر 11 ارب 75 کروڑ ڈالر کے تھے۔ اب یہ 9 ارب 75 کروڑ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوسکتے ہیں کیونکہ یوکرین پر روس کی لشکر کشی نے عالمی منڈی میں خام تیل کے دام بڑھا دیے ہیں۔ اگر خام تیل کے دام مزید بڑھے تو نیپال جیسے چھوٹے، معاشی طور پر کمزور اور خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک کی حالت مزید ابتر ہو جائے گی۔ خام تیل مہنگا ہونے سے مہنگائی بھی بڑھے گی۔ کورونا کی وبا کے دوران دو سال میں نیپال میں سیاحت کا شعبہ بْری طرح متاثر ہوا۔ اس کے نتیجے میں معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ اب تک ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔
جب بھی کسی ملک پر معاشی مشکلات کے بادل منڈلاتے ہیں تب معاشی امور کے ماہرین کام آتے ہیں۔ اْنہی سے مشاورت کی جانی چاہیے۔ وہ معیشت کی خرابیوں کو اچھی طرح جانتے ہیں اور بحالی کے لیے بہترین اقدامات تجویز کرسکتے ہیں۔ حکومت میں شامل ہر فرد معاشی امور کا ماہر نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے تجربے کرنا خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ سری لنکا میں حکومت نے عوام کو خوش کرنے کے لیے ٹیکس گھٹا دیے تھے۔ اِس کے نتیجے میں حکومت کی آمدن کم ہوگئی اور بہت سے شعبوں کو شدید الجھنوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اخراجات جب آمدن سے بڑھ گئے تو حکومت کے لیے معیشت کو قابو میں رکھنا ممکن نہ رہا۔ نیپالی حکومت کے معاملے میں اچھی بات یہ ہے کہ اس نے معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کی ابتدا کردی ہے۔ تعیشات کی درآمد پر فی الفور پابندی عائد کردی گئی ہے۔ صرف وہ اشیا درآمد کی جارہی ہیں جن کے بغیر ملک کو ڈھنگ سے چلانا ممکن نہ ہو۔ سائیکل، موپیڈ، چاول، کپڑے، مشینری، فاضل پرزوں، تیار ملبوسات، فرنیچر، سیمنٹ، کھلونوں اور سونا چاندی سمیت بہت سی اشیا کی درآمد روک دی گئی ہے۔ بعض درآمدات کو روکنے سے اندرونِ ملک معاشی مشکلات پیدا ہونے کا احتمال ہے۔ کچا کپڑا درآمد نہ کرنے سے ملک میں گارمنٹ کی صنعت متاثر ہوسکتی ہے۔ بہت سی درآمدات روکے جانے سے متعلقہ شعبے بند ہو جائیں گے، بے روزگاری بڑھے گی اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔ حکومت کا استدلال یہ ہے کہ فی الحال زرِ مبادلہ بچانا ہے۔ کچھ مدت کے بعد یہ پالیسی تبدیل بھی کی جاسکتی ہے۔ نیپال کے ریزرو بین کے عہدیداروں نے 27 تجارتی بینکوں اور مالیاتی اداروں کے نمائندوں کے ساتھ اجلاس کیا ہے اور ہدایت کی ہے کہ کوئی بھی غیر ضروری قرضہ جاری نہ کیا جائے۔
نیپال کی حکومت کا کہنا ہے کہ معیشت کا حال اْتنا بْرا نہیں جتنا بیان کیا جارہا ہے یا دکھایا جارہا ہے۔ حکومتی شخصیات کہتی ہیں کہ بعض عناصر معیشت کے حوالے سے افواہیں پھیلاکر ملک میں افراتفری پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ اس وقت نیپالی معیشت بھارت کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتی۔ خشکی سے گِھرا ہوا ہونے کے باعث نیپال کی تجارت بھارتی بندر گاہوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ نیپال کو راہداری دینے کے عوض بھارت اپنی بہت سی باتیں منواتا بھی ہے۔ تیل اور دوسری بہت سی اشیا منگوانے کے عوض نیپال ہر ماہ بھارت کو پچیس سے تیس ارب روپے ادا کرتا ہے۔ اگر نیپال کی معاشی حالت زیادہ بگڑی تو بھارت کو اس معاملے میں نیپال کو رعایت دینا پڑے گی۔ اس معاملے میں لچک نہ دکھانے پر بھارت کو عالمی برادری میں ساکھ کی خرابی کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔
نیپال کے وزیر اعظم شیر بہادر دیوبا دو ہفتے قبل پچاس رکنی وفد کے ساتھ بھارت آئے تھے۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں مل کر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔ ایک بات طے لگتی ہے، یہ کہ نیپال کو زیادہ مشکلات پیش آئیں تو بھارت ضرور مدد کرے گا مگر اس وقت نیپالی حکومت کو اپنی ساکھ کی فکر بھی لاحق ہے۔ اگر بھارت سے بہت زیادہ مدد لی تو نیپالی اپوزیشن شور مچانا شروع کردے گی کہ شیر بہادر دیوبا سے معیشت سنبھالی نہیں جارہی اس لیے بھارت کو غیر معمولی حد تک معاونت کرنا پڑ رہی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھارت کو ابھی سے نیپال کی بھرپور مدد کرنے پر مجبور ہونا پڑے تاکہ اْس کا حال سری لنکا جیسا نہ ہو۔ امریکا اور یورپی یونین کو بھی نیپال کی مدد پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ اگر اس مرحلے پر نیپالی حکومت نے دانش مندی اور دور اندیشی سے کام نہ لیا تو اْسی کو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
مصنف: کرشن کانت اُنڈکٹ
بہ شکریہ: روزنامہ ’’سندیش‘‘ (احمد آباد، بھارت)