انتخابی اصلاحات وقت کی ضرورت

529

پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ ممکن ہے بہت سے لوگوں کو وہ حل قبول نہ ہو لیکن یہاں کس کی چلی ہے۔ جو حل نکالا جائے گا وہ سب کو ماننا پڑے گا۔ ممکن ہے الیکشن کے اعلان ہی کو تسلیم کرکے تاریخ طے کردی جائے۔ یا پھر سب کچھ کالعدم قرار پائے اور وزیراعظم بحال ہو کر تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرے۔ اس کا نتیجہ اسمبلی کی تحلیل نہیں ہوگا لیکن حالات اسی نتیجے کی طرف جارہے ہیں کہ ملک میں نئے انتخابات کرائے جائیں اور متحدہ اپوزیشن نے جو مطالبہ کیا ہے وہ سیاسی بحران کے کسی بھی حل کی صورت میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ متحدہ اپوزیشن نے مطالبہ کیا ہے کہ الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ یہی مطالبہ ایک روز قبل جماعت اسلامی بھی کرچکی ہے۔ ملک کا انتخابی نظام اس وقت صرف جاگیرداروں، وڈیروں اور الیکٹ ایبلز کی کامیابی کا ضامن ہے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور میڈیا کے ذریعے عوام کو کسی حکمران کے وعدوں پر اس کا احتساب کرنے کے قابل نہیں چھوڑا جاتا۔ حکمرانوں کے وعدے اس وقت پٹاری سے نکالے جاتے ہیں جب کہیں سے اشارہ ہوتا ہے۔ جیسے اب عمران خان کے دور کے بجلی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا حساب نکالاجارہا ہے۔ یہ میڈیا پہلے تو اس طرح حساب نہیں کرتا تھا صرف ایک فیصلے کا ذکر ہوتا اور اگلے فیصلے تک خاموشی رہتی تھی۔ انتخابی اصلاحات میں سب سے اہم تو آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہے جب تک الیکشن کمیشن اپنی غیر جانبداری اور آزادی ثابت نہیں کرتا اس وقت تک کوئی بھی انتخابات میں ایمانداری کے ساتھ کامیابی کا یقین نہیں رکھ سکتا۔ دوسرا اہم ترین مسئلہ متناسب نمائندگی ہے۔ جس روز ملک میں متناسب نمائندگی کے تحت انتخابات ہوگئے اس روز جاگیردار، وڈیرے اور الیکٹ ایبلز کی سیاست ختم ہوجائے گی۔ عمران خان کم و بیش چار سال وزیراعظم رہے وہ جو وعدے کرتے ہیں اس کے مطابق تو انہیں متناسب نمائندگی پر انتخابات کا اصول اس پارلیمنٹ سے منوالینا چاہیے تھا۔ ان کا تو دعویٰ ہے کہ وہ جاگیرداروں اور وڈیروں کے خلاف ہیں۔
عمران خان ایسا نہ کرسکے۔ لیکن اب جب کہ پارلیمان کا اہم جز قومی اسمبلی معلق ہے، کابینہ موجود ہے لیکن نہیں ہے سارا بوجھ عدلیہ پر ہے تو تمام اہم قومی جماعتیں اور خود متحدہ اپوزیشن مل کر کوئی ایسا نظام وضع کرے جس کے نتیجے میں کوئی سلیکٹڈ حکمران نہ آسکے۔ جس کو ووٹ ڈالا جائے اسی کو ملے۔ یہ جو فلور کراسنگ اور ضمیروں کے سودے ہوتے ہیں یہ سب ختم ہوجائیں گے۔ مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، ایم کیو ایم ان کے علاوہ مولانا فضل الرحمن اور قوم پرست پارٹیاں یہاں تک کہ فرقے اور مسلک کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کے لیے بھی امتحان ہے۔ کیوں کہ متناسب نمائندگی کے نتیجے میں ایک ایک ووٹ گنا جائے گا۔ اس میں پارٹی کی اہمیت ہوگی ارکان اسمبلی کی نہیں اور کوئی رکن اس سے بغاوت نہیں کرسکے گا کیوں کہ فرد کی اہمیت ہی نہیں ہوگی۔ یہ نظام دنیا کے درجنوں ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے اس پر کوئی ہنگامہ ہی نہیں ہوتا اس لیے اس کا ذکر نہیں ہوتا۔ لیکن یہ یقین کرلیں کہ پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی یہ کام کرنے کو تیار نہیں ہے ان کی سنجیدگی کا امتحان ہے۔ ان میں سے کوئی پارٹی یہ نظام لانے کو تیار نہیں انہیں آزاد الیکشن کمیشن بھی برداشت نہیں بلکہ کوئی آزاد ادارہ برداشت نہیں ہے۔
جہاں تک عوام کی آگاہی اور رہنمائی کا تعلق ہے یہ کام تو الیکشن کمیشن اور میڈیا کا ہے کہ عوام کو رہنمائی دے لیکن وہ خود کسی ایجنڈے پر چل رہا ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کی آزادی اور خودمختاری کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ملک اور قوم کے لیے بہترین نظام تجویز کرے۔ متناسب نمائندگی کا نظام الیکشن کمیشن کے لیے بھی آسانیاں لائے گا۔ پاکستان الیکشن کمیشن خود ساختہ بڑی پارٹیاں، میڈیا، طاقت کے مراکز اور اسٹیبلشمنٹ کے نام میں چھپے ہوئے تمام ادارے پاکستان پر رحم کریں اور اب اس ملک کو کسی ڈگر پر چلنے دیں، اپنی مرضی کے انتخاب، اپنی مرضی کے مہرے اور اپنی مرضی کی حکومت بنوانے کا فیصلہ دماغ سے نکال دیں۔ ملک کو تباہ کردیا ہے سب نے مل کر۔ پتا نہیں اصلاحات انتخابی نظام میں کی جائے یا ان سب لوگوں، پارٹیوں اور اداروں میں۔ لیکن اصلاح کی ضرورت تو بہرحال ہے۔