سیاست میں اسلام کا استعمال

495

یہ مولوی اسلام کو سیاست کے لیے استعمال کررہا ہے۔ اسلام کو بیچ رہا ہے اور یہ کہتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں تو جب سے سیاست میں آیا ہوں ایاک نعبد وایاک نستعین کہتا ہوں۔ نبیؐ کے فرمان پر چلتا ہوں اور جب جلسوں کا اعلان ہوا تو وزیراعظم نے اپنے جلسے کا نام امربالمعروف رکھ دیا۔ لیکن مولوی مذہب کو بیچ رہا ہے۔ یہ مذہب کیا ہے اس مذہب اسلام کے ساتھ ظلم کب کب کیسے کیسے ہوا یہ بڑی دردناک کہانی ہے۔ پاکستان بننے سے اب تک سب سے زیادہ ظلم اسلام پر ہوا ہے۔ ایک طبقے کا خیال ہے کہ پاکستان بناتے وقت اسلام کا نام ہی نہیں لیا گیا تھا۔ یہ وہی طبقہ ہے جو پاکستان سے اسلام کو مٹانے کی جدوجہد کرنے والوں کا آلہ کار ہے۔ لیکن یہ ضرور ہوا کہ جوں ہی پاکستان بنا حکومت میں، ملکی بیورو کریسی میں، انتظامیہ میں، میڈیا اور سیاست میں ہر جگہ ایسے عناصر داخل کردیے گئے جو مذہب بیزار تھے اور باقاعدہ مہم چلا کر لوگوں کو مذہب سے برگشتہ کیا گیا۔ لیکن بھلا ہو ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کی جماعت کا جس نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور قوم کو یاد دلا دیا کہ پاکستان اسلام کے لیے بنا تھا اور اسلام ہی اس کا مقدر ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ جن قوتوں نے قومی معاملات میں سے مذہب کو باہر نکالا وہ ہر موقع پر مذہب کو استعمال کرتے رہے۔ مذہبی جماعتوں کے لیے سیاست ممنوع بنادی گئی اور خود سیاست کے لیے مذہب استعمال کرتے رہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی مذہب کو اپنے اقتدار کے لیے استعمال کیا لیکن سب سے زیادہ اور طویل استعمال جنرل ضیاء الحق نے کیا جنرل ضیا سے قبل ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسلام کو استعمال کیا۔ اگر ترتیب وار ان سب کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال نہایت ہولناک نکلے گی۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کا نعرہ دیا۔ سوشلزم ہماری معیشت سے اسلام ہمارا مذہب ہے۔ انہوں نے شراب پر پابندی اور جمعے کی چھٹی سیاسی دبائو کے دوران دی تھی۔ لیکن قادیانیوں کے خلاف فیصلے میں وہ سیاسی دبائو میں نہیں تھے۔ اس میں اپنے پورے شعور اور حواس کے ساتھ انہوں نے قادیانیوں کے خلاف فیصلے کا ساتھ دیا تھا۔ شاید اس کی سزا تھی کہ بھٹو صاحب اسلامی نظام کے نام پر ہی نکالے گئے۔ ان کے خلاف تحریک نظام مصطفی منظم ہوئی اور طاقتور ہوگئی۔ اس تحریک نظام مصطفی میں ولی خان بھی تھے اور تحریک استقلال بھی اور مسلم لیگ بھی تھی جن کا اسلامی نظام کے دعوے اور نفاذ سے کوئی علاقہ نہ تھا۔ اس تحریک کو عروج پر پہنچا کر بقول پروفیسر غفور … اور لائن کٹ گئی۔ سب لپیٹ دیا گیا… لیکن جنرل ضیا الحق نے سب سے زیادہ استعمال اسلام کا کیا۔ 90 روز میں الیکشن کے نفاذ کا اعلان کیا، ملک میں نظام مصطفی نافذ کرنے کا اعلان کیا اور 11 سال تک اسلام نافذ نہیں ہونے دیا، انہوں نے سب کچھ کیا اسلامی نظام نافذ نہیں کیا۔ پارلیمنٹ کو مجلس شوریٰ قرار دے دیا۔ اسلامی جماعتوں کے ٹکڑے کیے، لسانی اور علاقائی جماعتوں کو تیار کیا لیکن نام اسلام کا لیتے رہے۔ میڈیا البتہ قوم کو یہی بتاتا رہا کہ مولوی اسلام کو سیاست کے لیے استعمال کرتا ہے، اسلام کو بیچ رہا ہے، جنرل ضیا الحق نے 11 برس اسلام کو بیچا لیکن ہر ایک کی زبان پر ہے کہ مولوی ہر وقت کہتا رہتا ہے کہ اسلام کو خطرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دنیا دار سیاستدانوں کے اقتدار کو جب خطرہ ہوتا ہے انہیں اسلام یاد آتا ہے، کشمیر یاد آتا ہے، جہاد افغانستان یاد آتا ہے۔
پیپلز پارٹی کی رہنما بے نظیر بھٹو نے اسلام کو براہ راست استعمال نہیں کیا لیکن ہاتھوں میں تسبیح اور اپنے انداز سے یہ ظاہر کیا کہ وہ اسلام پسند خاتون ہیں۔ ایک مولوی اپنی حکومت میں ضرور رکھا۔ سب سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اسلام کے خلاف کھل کر کام کیا گیا۔ جنرل پرویز سیاسی محاذ پر بھی اسلام کے خلاف کام کرتے رہے اور امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان وزیرستان، سوات اور قبائلی علاقوں میں اسلام پسندوں کو کچلتے رہے۔ کشمیریوں کو چن چن کر قتل کرواتے اور پکڑواتے رہے۔ لیکن عمران خان ایسے سیاستدان ہیں جنہوں نے اسلام کو اقتدار میں آنے کے وقت خوب استعمال کیا اقتدار سنبھالتے ہی ریاست مدینہ یاد آگئی، اس کے بعد قادیانیوں کی سرپرستی رہی، سودی نظام رہا، یورپ امریکا کی تعریفیں رہیں اور پھر جب اقتدار جانے لگا تو اسلام یاد آگیا۔ یہ وہ خوفناک رویہ ہے جس سے جان چھڑانا ضروری ہوگیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت جو اقتدار میں آنا چاہتی ہے اسلام کو ضرور استعمال کرتی ہے اور اقتدار میں آکر اسلام ہی کو بھول جاتی ہے، گویا یوں کہا جاسکتا ہے کہ حکومت میں آتے اور جاتے کے وقت اسلام استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ جو پاکستانی سیاست میں فوج کی جانب سے، ججوں کی جانب سے حکمرانوں کی جانب سے اسلام کو صرف اسی وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ان کا اقتدار خطرے میں ہو اور کہا یہ جاتا ہے کہ مولوی اسلام کو استعمال کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب لوگ اللہ سے نہیں ڈرتے تو مذہب کا نام کیوں لیتے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ ہے… اور وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے 90 فی صد عوام کی دلی خواہش یہی ہے کہ ملک میں اسلام نافذ ہوجائے۔ البتہ یہ ان کی سادگی ہے کہ ان میں سے بہت سارے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سود کی حمایت کرنے والی مسلم لیگ یہ اسلام نافذ کرے، بہت سوں کی خواہش ہے کہ روشن خیال پاکستان والی پیپلز پارٹی اسلام نافذ کرے اور بہت سوں کا خیال ہے کہ ریاست مدینہ کا دعویٰ اور قادیانیوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والی، آئی ایم ایف اور سودی نظام کو چلانے والی پی ٹی آئی اسلام نافذ کرے گی۔ سوال یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام نافذ نہیں کرتے تو اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں۔ بس اب عوام کو اسلام کے پلیٹ فارم پر ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کیا جائے۔ یہ سارے لوگ اسلام کو بیچنے والے سیاستدان اور مولوی سب بھاگ جائیں گے۔