حاشر فاروقی ’’مولانا صاحب‘‘ کی نظر میں

699

حاشر فاروقی کے بارے میں ہم نے اپنی نامکمل معلومات کی بنیاد پر دو قسطوں میں مضمون لکھا تو ایک جانب اسے سراہا گیا اور دوسری جانب ندیم اقبال نے اس میں تشنگی کا شکوہ کیا اور انہوں نے دو تین لوگوں کا تذکرہ کیا کہ ان سے اس پر ضرور بات کی جائے۔ ان میں مولانا صدر الدین اصلاحی کے فرزند ڈاکٹر رضوان احمد فلاحی، تنظیم واسطی، جلیل خان صاحب، پروفیسر خورشید اور اسحاق عالمگیر المعروف مولانا صاحب کا ذکر تھا۔ ان میں سے سب سے پہلے اسحاق عالمگیر صاحب سے رابطہ ہوا۔ جلیل خان صاحب علیل بھی ہیں اور گرنے سے مزید چوٹ لگی ہے۔ رضوان احمد فلاحی سے بھی بات ہوئی۔ وہ خود کچھ لکھیں گے۔ فی الوقت اسحاق عالمگیر سے ہونے والی گفتگو یہاں نذر قارئین ہے۔ اسحاق عالمگیر، حاشر فاروقی صاحب کو کم و بیش پچیس سال سے جانتے ہیں اور گزشتہ پندرہ برس ان سے روانہ کا تعلق رہا ہے۔ انہوں نے حاشر فاروقی کا جو نقشہ کھینچا اس سے قارئین کو واقف کرنا ضروری ہے۔ مختصراً وہ کیا تھا… ایک اچھے مسلمان… چال بھی باوقار گفتگو بھی نرم اور سلام میں پہل کرتے تھے۔ ہر فرد کو نام سے پکارتے تھے۔ اور دفتر میں مخاطب کے ساتھ صاحب بھی لگاتے تھے۔ حاشر فاروقی کا حافظ بلا کا تھا۔ جس زمانے میں امپیکٹ جاری کیا کمپیوٹر نہیں تھا ہر چیز کو الگ الگ فائلوں میں رکھا جاتا اور انہیں یاد رہتا کہ کون سی چیز کس فائل میں ہے۔ کمپیوٹر آنے کے بعد تو ہر خبر کی فائلیں 5 موضوعات کے ساتھ محفوظ کی گئی ہیں تا کہ ضرورت کے وقت کی ورڈ کے ساتھ نکل آئے۔ سعودی تاجر صلاح الدین کی پیشکش کو اس لیے مسترد کیا کہ اس کے بعد امپیکٹ آزاد نہیں رہتا خود مختاری ختم ہوجاتی۔ آئی ایم ایف اور 1965ء کی جنگ کے دوران اور بعد ان کا احساس تھا کہ پاکستان اور اسلامی دنیا کا تحریر کے میدان میں یورپ میں دفاع ضروری ہے۔ پاکستان اور اسلامی ممالک کے دفاع میں امپیکٹ کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں وہ اختلافی تحریر ضرور لکھتے لیکن نہایت نرم انداز میں گویا ’’قَولاً لَّیِّناً‘‘ نرم بات کی تفسیر تھے۔ برطانیہ میں خصوصاً آج کل فرقہ بندی اور فقہوں کے درمیان کشیدگی رہتی ہے وہ کبھی ان معاملات میں نہ پڑے۔ وہ ایسے معاملات میں تفسیر ابن کثیر، تفہیم القرآن اور معارف القرآن اور بیان القرآن سے تحقیق کرتے۔ صحافیوں کے لیے یہ بڑا سبق ہے کہ تحقیق کے بغیر کبھی کوئی چیز تحریر میں نہیں لاتے اور ریفرنس کے بغیر شائع نہیں کرتے۔ اور قبول بھی نہیں کرتے۔ اس سوال پر کہ امپیکٹ کو اتنا وقت دیتے تو فیملی کے لیے کہاں سے وقت ملتا۔ مولانا اسحاق نے کہا کہ امپیکٹ ان کا اوڑھنا بچھونا تھا لیکن فیملی کو بھرپور وقت دیتے تھے۔ اصل بات یہ تھی کہ اپنا کام مکمل ہونے تک نہیں جاتے تھے۔ ہفتے اور اتوار کو گھر پر رہتے لیکن وہاں بھی ان کے ذہن و دل پر امت ہی حاوی رہتی۔ جریدے کو خوبصورت بنانے کی دھن سوار رہتی۔ ان کے بیٹے اوصاف فاروقی نے بھی بہت محنت کرکے ان کے دائیں بازو ہونے کا حق ادا کیا۔ اتنی مصروفیات کے باوجود لوگوں کے ذاتی کام بھی کرتے۔ ان کے خطوط کی ٹائپنگ بھی کردیتے۔ حاشر فاروقی کا خاص موضوع پاکستان اور سوڈان تھے۔ ان کے بارے میں اسحاق عالمگیر نے کہا کہ وہ چلتے پھرتے مبلغ تھے اور یورپ میں ایسے ہی مبلغ کی ضرورت بھی تھی۔ ایک طرف دنیا بھر کے کاموں پر امپیکٹ بھاری تھا تو دوسری طرف نماز کا وقت ہوتے ہی قلم رکھتے اور مسجد کا رخ کرتے۔ ان کا یہ رویہ سورۂ نور کی آیت 37 کی تفسیر ہے کہ ان کی تجارت اور خرید و فروخت انہیں اللہ کے ذکر اور نماز پڑھنے سے غافل نہیں کرتی۔ وہ واقعی سارے کام چھوڑ کر نماز کے لیے اٹھ جاتے تھے۔
حاشر فاروقی آج کل کے صحافیوں کی طرح تن آسان نہیں تھے۔ جس خبر پر کام کرنا ہو اس کے ہر پہلو کا جائزہ لیتے پورا منصوبہ سامنے رکھتے اس میں کون کیا کام کرے گا اس کی تقسیم کرتے اور تاریخ مقرر کرتے کہ کتنے دن میں یہ رپورٹ تیار ہوگی۔ ان کی رپورٹ ہمیشہ وقت پر اشاعت کے لیے تیار ہوتی تھی۔ ایک اہم بات پر وہ ہمیشہ توجہ دلاتے کہ جو خبر نمائندہ (اسٹنگر) بھیج رہا ہے اس سے بھی پوچھتے اور چھاپنے سے قبل اس کا جائزہ لیتے کہ نتائج کیا ہوں گے۔ پھر اگر نتائج ادارے کو یا ایڈیٹر کو بھگتنے ہوں تو بڑے آرام سے چھاپ دیتے۔ نمائندے پر بوجھ آرہا ہو تو اسٹوری نہیں چھاپتے۔ اسحاق عالمگیر نے بتایا کہ ان کی گفتگو میں اسلام مسلمانوں اور امت مسلمہ کے سوا کوئی اور بات نہیں ہوتی تھی۔ ان باتوں کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ آج کے صحافی ذرا اپنی صحافت اور طرز صحافت کا جائزہ لیں۔ ہم کیا کررہے ہیں۔ کس قسم کی صحافت کی جارہی ہے۔ اگر حاشر فاروقی کے نقش قدم پر چلیں تو پاکستان میں کوئی بھی فیک نیوز کے قانون کا شکار نہیں ہوسکے گا۔