فیک نیوز پر سزا تو عوام کو ہوتی ہے

648

 

سوچا کہ ماضی سے شروع کیا جائے یا حالات حاضرہ سے اور یہ تو سب جانتے ہیں کہ ’’حالات حاضرہ کو خود کئی سال ہوگئے‘‘ اس کشمکش میں شاہد خاقان عباسی کا کیس سامنے آگیا۔ تقریباً 70 دن نیب کی حراست میں رہے۔ نیب نے جو الزامات لگائے تھے ان میں سے کوئی بھی ثابت نہ ہوسکا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ نیب عدالت نے نیب کے الزامات کے خلاف آٹھ جولائی 2021ء کو دیا تھا۔ شاہد خاقان کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے ایل این جی ٹرمینل کی اجازت غیر قانونی طریقے سے دی تھی۔ عدالت نے کہا کہ مجاز فورم نے اس کی قانون کے مطابق اجازت دی۔ نیب امریکی مشاورتی فرم کے تقرر میں شاہد خاقان عباسی کی مداخلت کو ثابت نہیں کرسکا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ نیب شاہد خاقان عباسی کے خلاف صرف ایک چیز پیش کرسکا اور وہ سابق سیکرٹری پٹرولیم کا بیان تھا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ فیک نیوز پھیلانے پر سابق سیکرٹری پٹرولیم اور نیب پراسیکیوٹر کے خلاف کوئی کارروائی ہوگی۔ ان میں سے کس کو پانچ سال سزا ہوگی۔ ویسے تو حکومت اور اس کے اداروں کے دعوے بھرے پڑے ہیں۔ شہباز شریف کے خلاف مقدمات ہیں، مریم نواز کے خلاف مقدمات ہیں، نواز شریف کے خلاف غلط معلومات یا پوری معلومات نہ دینے کے مقدمات اور فیصلے ہیں لیکن وزیراعظم سمیت پوری کابینہ اور پی ٹی آئی انہیں چور کہتی ہے۔ یہی وزیراعظم جو پارلیمنٹ کے سامنے ناکا لگائے کنٹینر پر بیٹھے تھے اور روزانہ حکومت کو چور کہتے تھے اب تک کسی کی چوری ثابت نہ کرسکے۔ اسی طرح وہ خود کہتے تھے کہ کسی ملک میں مہنگائی بڑھ رہی ہو تو سمجھ لو کہ آپ کا وزیراعظم چور ہے۔ کہتے تو وہ فوج کے بارے میں تھے کہ جب ان کو ضرورت ہو تو حقیقی قیادت کی جگہ اپنے … کو حکومت میں لا کر بٹھادیتے ہیں۔ وزیراعظم کی کسی بات پر بھی انہیں پانچ سال قید ہوسکتی ہے۔ ایک عجیب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں جھوٹے وعدے کوئی کرتا ہے، فیک الیکشن کوئی کراتا ہے، فیک حکمرانی کوئی کرتا ہے لیکن سزا قوم کو پانچ سال کے لیے ہوجاتی ہے۔ قوم یہ سزا کئی بار بھگت چکی ہے۔ جنرل ضیا الحق نے 90 روز میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا اور 11 سال گزار دیے۔ نواز شریف نے ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کا اعلان کیا لیکن بکری بنا کر چھوڑا، بے نظیر بھٹو نے ملک کو ترقی دینے کے اعلانات کیے لیکن تباہ کر ڈالا۔ دونوں نے باریاں لگائیں لیکن عوام سے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔ عوام کبھی ڈھائی سال کبھی تین سال کی سزا بھگتتے رہے کہ اچانک جنرل پرویز آگئے، ایک نہیں کئی جھوٹ بولے اور قوم کو 8 برس کی سزا ہوگئی۔ سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا اور سب سے پہلے پاکستان چھوڑا۔ روشن خیالی کا نعرہ لگایا اور ملک کو اندھیروں میں بھٹکا دیا۔ پھر زرداری صاحب آئے اور بڑے فخر سے اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی نے پانچ سال پورے کرلیے۔ لیکن یہ تو عوام تھے جنہوں نے ایک مرتبہ پھر پانچ سال کی سزا بھگتی۔
اس کے بعد نواز شریف آگئے، انہیں ہٹایا گیا تو شاہد خاقان آگئے۔ بالآخر یہ پانچ سالہ سزا بھی پوری ہوگئی۔ پھر 2018ء کے انتخابات میں قوم کو فیک نیوز دی گئی کہ جس دن اقتدار میں آیا اگلے دن لوٹی ہوئی دولت پاکستان لے آئوں گا۔ آئی ایم ایف کا قرضہ اس کے منہ پر مار دیا جائے گا۔ پاکستان کے لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں دیں گے۔ لاکھوں گھر بنا کر دیں گے۔ لیکن نوکریاں ملیں نہ گھر الٹا لوگ بیروزگار ہوگئے، بے گھر ہوگئے۔ اس فیک نیوز پر کوئی کارروائی ہوئی۔ اور جن کو چور چور کہتے ہیں ایک تو ملک سے باہر جانے دیا ایک کو آزاد گھومنے دیا۔ اور جلسوں میں چور ڈاکو کی رٹ لگارہے ہیں۔ یا تو پیسہ لائیں اور وعدے پورے کریں یا فیک نیوز دینے کی سزا خود بھگتیں۔ عوام کو یہ سزا بھگتتے ہوئے چوتھا سال شروع ہوگیا ہے لگتا ہے کہ سیاستدانوں اور ان کے سلیکٹرز کی جانب سے دی جانے والی فیک نیوز پر موجودہ حکومت بھی عوام کو پانچ سالہ سزا دے کر نکل جائے گی۔
پی ٹی آئی حکومت کے وزرا اب تو بہت زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں ورنہ کل تک وہ اخبارات، صحافیوں اور ٹی وی والوں سے اس طرح بات کررہے تھے جیسے یہ سب مجرم ہیں اور وزرا، ایف آئی اے والے… ان فیک نیوز دینے والوں کو کون سزا دے گا۔ کیا پاکستانی عوام کی قسمت میں فیک نیوز دینے والے اور اس فیک نیوز کی سزا بھگتنا ہی لکھا ہوا ہے۔ دنیا بھر میں جھوٹ بولنے والے حکمرانوں کو ان کے عوام ہی مسترد کرتے ہیں لیکن پاکستان میں عوام اتنی آسانی سے دھوکا کھا جاتے ہیں اور بار بار کھاتے ہیں۔ اصل غلطی ان کی بھی ہے ایک مرتبہ جھوٹے وعدے کرنے والوں کو پکڑیں تو سہی۔ جھوٹ بول کر ووٹ لینے والا دوبارہ آئے تو اس کا احتساب خود کریں۔ اس سے پچھلے وعدوں کا حساب لیں۔ جس دن عوام یہ کرنے لگے ساری فیک نیوز اور فیک قیادت ختم ہوجائے گی۔ یہ جو فیک نظام جمہوریت کے نام پر مسلط ہے اس کا بھی خاتمہ ہوجائے گا۔ اس پیکا قانون کے خلاف اخبارات کی تنظیموں، ایڈیٹرز، مالکان، رپورٹرز، یونینوں سب نے جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی ہے اور متحد ہو کر اس کو مسترد کردیا ہے لیکن یہ اتحاد صرف اس وقت ہوتا ہے جب ڈنڈا پڑتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ تمام صحافی ادارے بھی اپنی اپنی ذمے داریاں پوری نہیں کرتے۔ پھر جب کوئی کارروائی ہوتی ہے کوئی لپیٹ میں آتا ہے تو کارکنوں کو پکارتے ہیں جن کا استحصال خود کرتے ہیں۔ توجہ تو اس کی طرف دینی چاہیے۔ میڈیا اور اخبارات کی فیک نیوز کسی سیاسی رہنما یا شخصیت کے خلاف خبر نہیں۔ بلکہ فیک نیوز یہ بھی ہے کہ اپنے ادارے کو صحافتی ادارہ کہا جائے اور تجارت کی جائے۔