!صنف ِ نازک، ہے سخت پریشاں

377

سنتے تھے کہ زمانہ جاہلیت میں بسنے والے لوگ بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی دفنا دیا کرتے تھے، لیکن یہ ہمارے موجودہ دور کے لوگوں کو کیا ہوا ہے؟؟ آج بیٹیوں کو دفنا تو خیر نہیں رہے لیکن باقی ساری ناانصافیاں، بدسلوکیاں اور ظلم و ستم تو اُن کے ساتھ پوری طرح برتا جا رہا ہے، اب ہمارے سلیم بھائی (مکینک) کو ہی سُن لیجیے، ان کے دو بچے ہیں بڑی، بیٹی اور چھوٹا، بیٹا۔ پچھلے دنوں گاڑی کے کسی کام سے موصوف کے پاس جانے کا اتفاق ہوا تو باتوں ہی باتوں میں بڑے فخر سے بتانے لگے کہ بیٹے کا ایک بہت ہی شاندار اسکول میں داخلہ کروا دیا ہے اور کیونکہ وہ اسکول کافی مہنگا اور ان کے ذرائع آمدن محدود ہیں، بیک وقت دونوں بچوں کو پڑھانا ممکن نہیں، اس لیے بیٹی کو اُس کے اسکول سے اٹھوا لیا ہے۔ اب بیٹا اسکول جائے گا، پڑھ لکھ کر اچھی سی نوکری کرے گا، پیسے کما کر لائے گا اور میرا سہارا بنے گا۔ ارے یہ کیا۔۔۔؟ یہ کیسا فیصلہ ہے؟ کیسی منطق ہے یہ؟ اولاد کے بیچ برتا جانے و الا کیسا فرق ہے؟ بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتی یہ سوچ سمجھ سے بالاتر تھی۔ ’’دونوں کو کسی درمیانے درجے کے اسکول میں داخل کروا دیتے سلیم بھائی، دونوں ہی پڑھ لیتے‘‘ میں نے مشورہ دینے کی ناکام سی کوشش کی تھی۔ ’’ہماری برادری میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے لکھانے کا رواج نہیں، نوکری تو کرنی نہیں، اپنے بیاہ کے بعد دوسرے گھر جاکے کرنا تو چولہا ہانڈی ہی ہے نا، تو کیا فائدہ پڑھا، لکھا کے‘‘۔ اور پھر سلیم بھائی اسی طرح کے اور بھی دلائل (اپنے حق میں) دیتے رہے اور میں چپ چاپ کھڑا سنتا رہا، اُس دن گاڑی تو صحیح لیکن دل خراب ہوگیا تھا، سلیم بھائی سے نہیں، ان کی باتوں سے!!
پھر کچھ دن بعد ہی محلے کے دوستوں کے ساتھ ہونے والی ایک نشست میں یہ افسوسناک خبر سننے کو ملی کہ گلی کہ ایک ’نوجوان‘ بیٹے نے اپنی ’’بوڑھی‘‘ ماں کو تھپڑ مارا ہے جس کی گونج نے قرب وجوار میں بسنے والے والدین کے دلوں کو دہلا دیا ہے۔ وجہ بیٹے کو جیب خرچ کا نہ ملنا تھا، بھلا ملِ بھی کیسے سکتا تھا، باپ نشے کی حالت میں دھُت ہمہ وقت بے حال رہتا تھا، کوئی اور کمانے والا تھا نہیں، ایسے میں بیچاری اکیلی ماں پورے گھر کا بوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ کپڑوں کی سلائی سے حاصل ہونے والی آمدنی، روزبروز بڑھتی، زندگی کو پریشاں کرتی مہنگائی کے مقابلے بہت محدود تھی۔ ایسی صورتحال میں تو بنیادی ضروریات ِ زندگی کا پورا ہونا محال تھا، جیب خرچ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ خیر، پھر محلے کے چند بزرگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اُس جوان بیٹے کو سمجھائیں گے کہ ماں وہ ہستی ہے کہ جس کی عظمت کی بلندیوں تک رسائی نے ’جنت‘ کو اُس کے قدموں تلیِ لا پہنچایا ہے۔ اُسے بتائیںگے کہ یہ حرکت، یہ گناہ کرکے اُس نے اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو برباد کرنے کا سامان کیا ہے، اُسے یہ احساس دلائیں گے کہ جلد ازجلد معافی مانگ کر راہِ راست پر آجائے، کہیں دیر ہو گئی تو بے مقصد پچھتاوا اور لا حاصل پشیمانی، اذیت بھری زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دے گی۔
پھر ایک صبح خالہ زاد بہن صدف کے انتقال کی افسوسناک خبر سننے کو ملی، صدف کی عمر 34 برس تھی، شادی 17 سال کی عمر میں ہی ہوگئی تھی، جب پہلی بیٹی دنیا میں آئی تو سسرال والوں کے ساتھ، ساتھ شوہر نے بھی منہ بنا لیا تھا۔ ’’ہمارے خاندان کی ریت رہی ہے کہ پہلا بیٹا ہی ہوتا ہے، لڑکے کی تو بات ہی الگ ہوتی ہے، پہلا تو لڑکا ہی ہونا چاہیے تھا‘‘ یہ اسپتال میں ملنے آنے والے سسرالیوں کی آوازیں تھیں جو صدف کی بے بسی کا کھلم کھلا مذاق اڑُا رہی تھیں۔ بیٹا یا بیٹی، یہ مرضی تو کائنات کے اس خالق کی ہے کی کہ جس کا ہر فیصلہ اپنی تخلیق کے حق میں بہت بہتر اور بہت خوب ہوتا ہے، شکرگزاری تو راضی بہ رضا ہونے ہی کا نام ہے، لیکن یہ بات صدف کی زندگی سے جڑے وہ لوگ شاید نہیں سمجھ رہے تھے، تب ہی تو بیٹے کی خواہش میں ہر سال ایک بیٹی کو جنم دیتی صدف، خراب صحت اور خراب ترین رویوں کا بوجھ نہیں سہار سکی اور پھر چپُ چاپ، زُباں پر کوئی بھی شکوہ لائے بغیر، صبر کا مسلسل امتحان دیتے ہوئے، زندگی سے ہمیشہ کے لیے آنکھیں چُرا گئی تھی۔
مذکورہ واقعات بہت کم ہیں، ہمارے معاشرے میں عورتوں کو متعدد مسائل کا سامنا ہے جن پر کئی تحریریں سامنے لائی جاسکتی ہیں۔ یہ سال 2022 کا ہے، آج کی زندگی تو سائنسی ترقی، شعور و آگہی، روشن خیالی اور فہم وفراست سے عبارت ہے تو پھر موجودہ دور میں بیان کردہ تلخ حقیقتوں کا وجود کیسے اور کیونکر ممکن ہو رہا ہے؟ ہمارے معاشرتی نظام میں عورت کا ہر روپ ہر دور میں کسی نہ کسی اذیت، مصائب، تکلیف و پریشانی سے ضرور دوچار رہا ہے۔ کیا یہ سب یوں ہی چلتا رہے گا؟ کب تک، آخر کب تک منفی سوچ، برُے عمل اور فرسودہ خیالات دامن تھامے رہیں گے؟ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں سمجھنا ہوگا، اور دوسروں کو بھی سمجھانا ہوگا کہ بیٹی کے لیے بھی معیاری تعلیم اُتنی ہی ضروری ہے کہ جتنی بیٹے کے لیے۔ قدموں تلے جنت رکھنے والی ہستی کا مقام تعظیم وتکریم کا متقاضی ہے، ’اُف‘ تک کہنے کی ممانعت ہے۔ اولاد نعمت بن کر ملے یا رحمت بن کر، ہر حال میں شکر بجا لانا مقصود ہے کیونکہ خالقِ کائنات کی جانب سے والدین کو اولاد کا انمول تحفہ دیے جانے میں دشواریاں نہیں بلکہ بہتری ہی پوشیدہ ہے۔ خواتین سے متعلقہ دیگر سماجی مسائل کو معاشرتی، اخلاقی اور مذہبی اقدار کی پاسداری عمل میں لاتے ہوئے اُجاگر کیا جائے تو مثبت نتائج ضرور حاصل ہوں گے۔