مسئلہ تو پیٹرول ہی بنتا ہے

481

 

یوکرین اور روس کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ امریکا، برطانیہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف صف آرا ہوگئے۔ اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ دنیا بھر میں مہنگائی کا سونامی آگیا۔ کیا یہ نئی خبر ہے۔ اس بارے میں غور کرنے کے لیے اب تو صرف یادداشت کو تھوڑا بہت جھٹکا دیں سب کچھ سامنے آجائے گا۔ شاید پہلی جنگ عظیم کے حالات جاننے کے لیے بہت محنت کرنا پڑے لیکن دوسری جنگ عظیم کے وقت اعداد و شمار رکھنے کی روایت پڑچکی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور دنیا پر بہت زیادہ اثر پڑا لیکن درحقیقت یہ جنگ تیل پر کنٹرول کی پہلی جنگ تھی۔ کیوں کہ دنیا بھر کی فوجوں کی زندگی پیٹرولیم کی دستیابی پر تھی۔ دوسری جنگ عظیم تک حالت یہ ہوگئی تھی کہ برطانیہ، امریکا اور حلیفوں کے کنٹرول میں دنیا کے پیٹرولیم ذخائر کا 90 فی صد تھا جب کہ دیگر ممالک صرف تین فی صد تک رسائی رکھتے تھے۔ 1939ء سے 1945ء تک امریکا اور حلیفوں نے 7 ارب بیرل تیل استعمال کیا جس میں سے 6 ارب بیرل امریکی کنوئوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ 1945ء کے بعد پیٹرول زیادہ اہمیت اختیار کرگیا اور عالمی تنازعات کا سبب بنتا چلا گیا۔ دنیا کیا کہتی ہے لیکن پہلی عالمی جنگ سے اب تک دنیا بھر میں جتنی بڑی جنگیں ہوئی ہیں جن میں امریکا، برطانیہ، روس وغیرہ شامل ہوتے ہیں وہ سب پیٹرول سے متعلق تھیں۔ عربوں یا اوپیک نے بھی اور سعودی عرب نے بھی تیل کے ہتھیار کو استعمال کیا۔ لیکن ان ہتھیار پر سارا کنٹرول امریکا کا ہے، یہ اعداد و شمار رکھنے والوں کے پاس سے مل جائیں گے لیکن ایک جائزہ اور بھی لیا جائے جو بڑا دلچسپ ہے۔
جائزہ یہ ہے کہ 1979ء میں روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے بہت ہنگامہ کیا (زبانی) بالکل اسی طرح جس طرح 1971ء میں پاکستان کا دفاعی حلیف ہونے کے باوجود بھارت کے خلاف پاکستان کی مدد نہیں کی اور ملک دو ٹکڑے ہونے دیا۔ 1979ء میں روس کی فوج کے خلاف کوئی ملک کارروائی کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ بس ایسے ہی زبانی جمع خرچ کرتا تھا جیسا پاکستانی حکمران کشمیر کے مسئلے پر مودی اور بھارت کے خلاف کرتے ہیں۔ وہ تو کابل یونیورسٹی کے طلبہ اور پاکستانی فوج خصوصاً جنرل ضیا الحق نے ریورس گیئر لگوا دیا۔ اس کے بعد 1980ء میں امریکیوں نے سوچا کہ اس جنگ کو ہائی جیک کرلیا جائے۔ چناں چہ امریکا کودا۔ سعودی عرب کو گھسیٹ کر لائے اور روس کے قدم الٹ دیے گئے۔ افغان مجاہدین کی جنگ کو امریکی فتح قرار دیا گیا۔ اس دور میں امریکا نے روس میں کھیلوں کا بائیکاٹ کیا اس کا مطالبہ تھا کہ روس افغانستان سے نکل جائے۔ یہ عرصہ 1979ء سے 1989-90ء تک کا ہے۔ پھر سین بدلتا ہے۔ 1980ء کے ٹھیک 20 سال بعد امریکا افغانستان میں داخل ہوگیا۔ روس اور دیگر ممالک نے احتجاج کیا لیکن پاکستان سمیت کوئی ملک امریکی پیش قدمی نہیں روک سکا۔ جنرل ضیا نے تو روس کو روکنے کا اعلان کیا تھا اس وقت امریکا سرپرستی نہیں کررہا تھا۔ لیکن جنرل پرویز مشرف نے تو ایک ٹیلی فون کال پر جس طرح ہتھیار ڈالے اس طرح تو جنرل نیازی نے بھی نہیں ڈالے تھے انہوں نے بھی تھوڑی بہت جنگ لڑی تھی۔ جنرل پرویز کے ہتھیار ڈالتے ہی امریکا نے افغانستان تو نہیں پاکستان فتح کرلیا۔ اب ایک مرتبہ پھر سین بدلا ہے۔ امریکا افغانستان سے نکل گیا ہے اور روس یوکرین تنازع سر اٹھا رہا ہے۔ بھاٹی لوہاری چوک پر کھڑے مخولیوں کی طرح روس، امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک جگتیں لگا رہے ہیں۔ چمڑے کے چھوٹے چھوٹے چھتر بھی ان کے ہاتھوں میں ہیں۔ جن کو وہ کبھی عراق کے عوام کی کمر پر مارتے ہیں کبھی افغان عوام کی کمر پر کبھی پاکستانی قبائلی علاقوں پر کبھی ایرانی عوام پر۔ ان کا زیادہ نشانہ مسلم ممالک ہوتے ہیں۔ کبھی روس کہتا ہے یہ میرا علاقہ ہے۔ امریکا ایک چھتر مار کر کہتا ہے روس نے تباہی کا انتخاب کیا ہے۔ اسے بھاری قیمت دینا ہوگی۔ لیکن یہ بھاری قیمت تو یوکرین کے عوام کو دینا ہوگی۔ آج کل امریکا چین کے سرمائی اولمپکس کا سفارتی بائیکاٹ کررہا ہے کبھی پاکستانی وزیراعظم کے روس جانے پر پاکستان کے خلاف کارروائی کررہا ہے۔ نیشنل بینک پر جرمانہ اس کی کڑی ہے۔ لیکن امریکا برطانیہ جرمنی وغیرہ روس کو نہیں روک پارہے۔ بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ روکنا ہی نہیں چاہ رہے۔ اس تنازع کی جڑیں کھودی جائیں تو شاید وجہ پیٹرول نکلے۔
جہاں تک پیٹرولیم مصنوعات کا تعلق ہے تو یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں نسبتاً مہنگا پیٹرول ہے لیکن پاکستانی عوام کی قوت خرید ان کی سالانہ آمدنی اور حکومت کی جانب سے سہولتیں نہ ہونے کے سبب یہ ہنگائی حد سے تجاوز کرگئی ہے۔ پیٹرول کم استعمال کرنے کا مشورہ دینے والے وزیر اس ملک میں وہ نظام کیوں نہ بنا سکے جو انڈونیشیا میں دیکھا گیا۔ اس کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین ہمیں پارلیمنٹ ہائوس سے ایک وزیر کے گھر لے جارہے تھے لیکن کچھ پریشانی کا شکار تھے۔ ہم نے پوچھا کیا
مسئلہ ہے تو کہنے لگے میری گاڑی میں 6 افراد کی سیٹ ہے مجھے کم از کم 5 افراد بٹھانے لازمی ہیں ورنہ گاڑی ضبط کرکے میرا چالان کردیا جائے گا۔ چناں چہ اس نے ’’ایمانی‘‘ (انڈونیشیا کی الخدمت یا پیما کے رضا کار کو گاڑی میں بٹھایا اور گاڑی سڑک پر پہنچائی۔ اتنی سوچ تو شاید شبلی فراز کی نہیں ہوگی۔ ممکن ہے خود فراز نے کبھی اتنی اونچی سوچ لی ہوگی۔ ذیل میں 1913ء سے اب تک کی پیٹرول کی قیمتیں اور 2022ء کے حساب سے ان کی قیمتیں درج ہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ پٹرول کی قیمتیں کم و بیش یکساں رہی ہیں۔