۔29 دنوں کی شب و روز کی مشقت

333

خون جماتی ہوئی سردی، سرد موسم میں برسنے والی بارش… اور پھر قدرت نے ایک اور امتحان لیا، ہوا کا طوفان آیا اور بینر، لائیٹیں اور ساؤنڈ سسٹم سب درہم برہم ہوگیا۔ مگر دھرنے والوں کے حوصلے تب بھی نہ ڈگمگائے۔ دیکھنے والے شاہد تھے کہ ان تمام آزمائشوں کے دوران دھرنے کے شرکا کی تعداد بڑھتی رہی… بڑھتی رہی۔ لہو جماتی سردی میں لہو گرماتے نعرے، جہادی ترانے اور گرما گرم تقاریر… جذبوں کو جلا دیتی رہیں۔ دھرنا جاری رہا۔ قافلے آتے رہے۔ اور جب ان تمام آزمائشوں میں سرخرو ہوئے، مذاکرات کامیاب ہوئے۔ دن رات ایک کردینے والے کارکنان اور ان کی پہاڑ جیسے عزائم والی قیادت نے اپنے لیے کیا مانگا؟۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ اعلان ہوا کہ ’’جدوجہد ہماری اور فتح اللہ کی ہے‘‘۔
اور وہ جو 2013 تک حکومت کا حصہ ہوتے ہوئے ہر قسم کی قانون سازی میں عملاً شریک رہے،’’کراچی ہمارا ہے‘‘ کے نام پر اہل کراچی سے ہمدردیاں جتاتے رہے۔ پھر تبدیلی والوں نے ترقی و خوشحالی کے سہانے خواب ہوا میں اڑا کر اہل کراچی کو اس دن سے آج تک خوب ماموں بنایا۔۔۔ ان سب کو آج یہ پریشانی لاحق ہے کہ ایک سیٹ والوں نے کس طرح حکومت سندھ کو کالا قانون واپس لینے پر مجبور کردیا…؟ یہ سوال تو ان سب سے پوچھنے کا ہے جو بلواسطہ اور بلاواسطہ حکومتوں کا حصہ رہے بلدیاتی حکومتوں سے بتدریج اختیارات لینے کا آغاز ہوا یہ اسمبلیوں کا حصہ ہوتے ہوئے بھی کسی قانون کی راہ میں نہیں آئے۔ بلدیہ کے حقوق سلب ہوتے رہے اور یہ محض گردنیں ہلاتے رہے۔ اب جبکہ جماعت اسلامی نے عوام کے حقوق کی حقیقی ترجمانی کرتے ہوئے ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا ہے۔ قیادت نے اعلان کیا ہے کہ طے پا جائے والے امور کی مانیٹرنگ ہوتی رہے گی اور دیگر آپشنز بھی کھلے رہیں گے۔
ان کامیابیوں کی بعد پی ٹی آئی کو بھی سندھ حکومت کے عائد کردہ کالے قانون کے خلاف غصہ اور جماعت اسلامی کے ’’ماموں‘‘ بن جانے کا غم ہے۔ متفقہ اپوزیشن کو بھی احتجاج کا خیال آیا ہے اور مصطفی کمال کو بھی دھرنے کی سوجھی ہے۔ اب سب کہتے ہیں کہ اس کالے قانون کے خلاف ہم تحریک چلائیں گے۔ چلائیں تحریک اور کریں شوق پورا۔ تحریکیں چلانے اور اسے کامیابی کے موڑ تک لانے کا کام اصل میں قربانیاں مانگتا ہے۔ وقت کی قربانی، مال کی قربانی اور عیش و آرام کی قربانی۔
اگر کراچی کے حقیقی ہمدرد کے طور پر ماضی میں کوئی کردار ادا کیا ہوتا تو آج کسی کو شاہراہیں بلاک کرنا پڑتیں نہ سڑکیں مردوں سے بھرنا پڑتیں۔۔۔ حقیقی مسائل حل کرنے کے بجائے اہل کراچی میں خوف و ہراس اور احساس محرومی ابھار کر حکمرانی کی گئی، مہاجر، غیر مہاجر، سندھی اور غیر سندھی کارڈز پھینکے گئے۔ جبکہ دوسری جانب 29 روزہ اس دھرنے میں ہم نے خود سندھی، مہاجر، بلوچی، پٹھان ہر قوم اور ہر پارٹی سے وابستہ افراد کو ایک صف میں کھڑے دیکھا، مالک کے حضور سر بسجود دیکھا۔۔۔ تمام اختلافات بھلا کر صرف کراچی کاز پر اکھٹے ہوتے دیکھا۔
ماضی میں اے پی ایم ایس او سے وابستہ ایک سرگرم کارکن نے بحریہ ٹاؤن کا چیک وصول کرتے ہوئے اسٹیج پر آکر کہا کہ ’’میں یہاں آنے سے خوفزدہ تھا کہ مجھ سے میری وابستگی کے حوالے سے پوچھا جائے گا مگر مجھے بہت خوشی ہوئی یہ جان کر کہ کسی نے مجھ سے میری سیاسی وابستگی کے حوالے سے کوئی پوچھ گجھ نہ کی‘‘ یہی ہے آفاقیت کا پیغام۔۔ کہ ذاتی، گروہی، مسلکی اور لسانی گروں بندیوں سے نکل آؤ۔ عصبیت کے جھوٹے نعروں کو بھلا دو۔۔۔ وہ کراچی جو کبھی ’’منی پاکستان‘‘ تھا۔ جو غریبوں کے لیے ایک پناہ گاہ کی طرح تھا، اس کراچی کو اب اپنی اصلیت کی طرف پلٹنے دو۔
متنازع بلدیاتی قانون کے مسترد ہونے یا نہ ہونے کی اس جنگ میں کون کامیاب ہوا اور کس کے ساتھ ہاتھ ہوگیا۔۔۔؟؟ سیاسی نقاد اب کرتے رہیں یہ فیصلہ۔۔۔ اب کون ہے جو اس کے خلاف حقیقی تحریک چلانے کا دعویٰ کر رہا ہے؟؟ یہ باتیں بھی چلتی رہیں گی۔ فی الحقیقت جماعت اسلامی کے 29 روزہ دھرنے نے کراچی اور اہل کراچی کو باہم جڑتے اور ایک ہوجانے کا جو آفاقی پیغام دیا ہے۔ اس پیغام کو اپنی پوری اثر انگیزی کے ساتھ برقرار رکھنا اب اصل کام ہے۔ جی ہاں آفاقی پیغام یعنی ’’بندوں کو بندوں کی غلامی سے نکالنا، ذات، نسل اور زبان کی بنیاد پر کسی کو کم تر اور برتر قرار نہ دینا، اور اللہ کی خاطر ایک ہوجانا‘‘۔ یہی وہ پیغام ہے جو اس شہر بے مثال کی گم ہوتی روشنیاں واپس لوٹا سکتا ہے۔