اقتدار کی ہوس اور موروثی سیاست کے باعث کئی عشروں تک نظریاتی سیاست کاکوئی امکان نہیں

644

کراچی (رپورٹ: حماد حسین) اقتدار کی ہوس اور موروثی سیاست کے باعث کئی عشروں تک نظریاتی سیاست کاکوئی امکان نہیں ‘یہاں پر ایسا سازگار ماحول ہی بننے نہیں دیا گیا کہ اصولوں پر سیاست ہو‘ کبھی مذہب کارڈ استعمال کیا گیا اور دین کو خود غرضی کی بھینٹ چڑھایا گیا‘ طلبہ یونین نہیں ہیں جہاں سے اصل سیاستدان، نظریاتی سیاست دان نکل کر آسکیں‘ چند مٹھی بھر زرپرست، ہوس پرست سیاسی جماعتیں ہیں‘ چند خاندان، جاگیردار اور وڈیرے ہیں جن کا سیاست پر قبضہ ہے‘ پاکستان میں نظریاتی سیاست کرنے والی جماعت کو کبھی اقتدار نہیں ملا‘ نظیریاتی سیاست کی جگہ دنیاوی خواہشات، اقتدار کی ہوس اور موروثی سیاست نے اس کی جگہ لے لی‘ ۔ان خیالات کا اظہار جامعہ کراچی کے شعبہ سیاسیات کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر ثمینہ سعید، علما یونیورسٹی کے شعبہ میڈیا سائنسز کی چیئرپرسن ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ کامرس کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صبا زہرہ اور شعبہ ایجوکیشن کی ماہ پارہ کمال نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا پاکستان کی سیاست کبھی نظریاتی بن سکے گی؟‘‘ ڈاکٹر ثمینہ سعید کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کی وہ واحد مملکت ہے جس کا نظریہ اس کے قیام سے پہلے سے موجود تھا۔ یعنی نظریہ اسلام۔ برصغیر میں رہنے والے مسلمان اس ایک نظریے کو ہی مانتے تھے‘ اسی نظریہ پر کاربند رہتے ہوئے پاکستان کا قیام وجود میں آیا‘ اسی نظریے کی بنیاد پر ہے کہ مسلمانوں نے اپنی زندگی کا اختیار اللہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے قانون کو قرار دیاہے‘ لیکن بہت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑے گا کہ عملی طور پر پاکستان کے قیام کے ساتھ ہی سیکولر نظریات کے حامی افراد نے اپنے نظریات سے رہنمائی حاصل کی اور نظریہ پاکستان کو نظرانداز کیا جس کی بنیاد یہ تھی کہ حکومت کرنے اور زندگی گزارنے کے لیے اصول و ضوابط وہ خود مرتب کرناچاہتے تھے‘ یہ نظریات نظریہ پاکستان کے سرا سر منافی ہیں‘ پاکستان کی نظریاتی بنیادیں کمزور کی جا رہی ہیں اور اپنے انفرادی فوائد حاصل کیے جا رہے ہیں اور اجتماعی مفادات کو قربان کیا جا رہا ہے۔ اسلامی نظریاتی مملکت عملی طور پر جب کامیاب ہوتی ہیں جب سیکولر نظریات کے حامل افراد کو اقتدار سے الگ کردیا جائے لیکن تا حال پاکستان میں اس کوشش میں کامیابی نظر نہیں آتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین فاروقی کا کہنا تھا کہ سیاسی نظریہ دراصل سیاسی شعور ہوتا ہے جو طرزِ حکومت اور عوامی فلاح وبہبود کا طریقہ کار وضع کرتا ہے تاکہ ملک ترقی کرے اور اس کی نیک نامی ہو۔ بدقسمتی سے جب سے پاکستان بنا ہے نظریاتی سیاست پنپ ہی نہیں سکی‘ یہاں جو جماعتیں نظریاتی سیاست کرنا بھی چاہتی ہیں اور اس کا پرچار بھی کرتی ہیں ان کو اقتدار میں آنے کا کبھی موقع نہ مل سکا‘ جب پاکستان وجود میں آیا تو مسلم لیگ ایک نظریاتی جماعت تھی جس کا واضح مقصد تھا کہ مسلمانان برصغیر کے لیے ایک علیحدہ وطن بنایا جائے‘جہاں وہ اپنے مذہب اور زبان و ثقافت کے ساتھ آزاد زندگی بسر کرسکیں‘ مگر ملک بننے کے بعد اس جماعت کی اتنی شاخیں بنتی چلی گئیں کہ نظریہ کہیں گم ہوگیا اور دوسری دنیاوی خواہشات، اقتدار کی ہوس اور موروثی سیاست نے اس کی جگہ لے لی حالانکہ قائداعظم نے ہمیشہ عوام کے حقوق کی بات کی، اصولوں کی سیاست کی، کبھی ذاتی مفاد کا نہیں سوچا بلکہ اجتماعی فائدہ دیکھا‘ جو بے لوث قائد ہونے کا اور اپنے نظریے پر کاربند رہنے کا عملی ثبوت دیا۔ نظریہ سیاست کو اپنے آپ سے بالاتر ہو کر عوام کے لیے سوچنے کا درس دیتا ہے مگر پاکستان میں نظریاتی سیاست جگہ نہ بناسکی‘ یہاں پر ایسا سازگار ماحول ہی بننے نہیں دیا گیا کہ اصولوں پر سیاست ہو‘کبھی مذہب کارڈ استعمال کیا گیا اور دین کو خود غرضی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ کیوں کہ اس ملک میں سب سے ارزان چیز مذہب ہے جہاں ضرورت ہو اسے سستے داموں بیچ دیا جاتا اور سود سمیت نفع کما کر بھی دھلے دھلائے رہتے ہیں‘ یہاں اسٹوڈنٹس یونین نہیں ہیں جہاں سے اصل سیاستدان، نظریاتی سیاست دان نکل کر آسکیں‘ مٹھی بھر زرپرست، ہوس پرست سیاسی جماعتیں ہیں، چند خاندان ہیں، چند جاگیردار اور وڈیرے ہیں جن کا سیاست پر قبضہ ہے۔ جو نہ سول سوسائٹی کو مانتے ہیں، نہ عدالتوں کو مانتے ہیں، نہ ان کا کوئی اصول ہے، نہ دین ایمان۔ نظریہ تو بہت دور کی بات ہے۔ ان ہی خاندانوں کے وارث نسل در نسل اقتدار میں آجاتے ہیں، اپنے خزانے اور تجوریاں بھرتے ہیں اور اگلی نسل کے لیے راہ ہموار کرکے چلے جاتے ہیں، نہ انہیں عوام کے مسائل کا پتہ ہے ، نہ ملکی نظام کو درست سمت میں چلانے کی کوئی خواہش ہے۔ ان کا مقصد اقتدار ہے، دولت ان کا قبالہ ہے‘ آنے والے کئی عشروں میں تو کہیں نظر نہیں آتا کہ نظریاتی سیاست ملکی سطح پر جگہ بناسکے گی جب تک کرپٹ مافیا اپنے خاندانوں کے ساتھ براجمان ہے۔ ایسا ہونا مشکل ہے۔ اللہ ہی اس ملک کی حفاظت کرے۔ ڈاکٹر صبا زہرہ کا کہنا تھا کہ نظریہ پاکستان ایک ارتقائی عمل کے ذریعے تشکیل پایا تاریخی تجربے نے بنیاد فراہم کی اور علامہ محمد اقبال نے اس کی فلسفیانہ وضاحت کی۔ قائداعظم نے اس کا ترجمہ سیاسی حقیقت میں کیا ہے‘ قراداد مقاصد کے ذریعے قانونی شکل دی گئی۔ نظریہ پاکستان جنوبی ایشیا کی مسلم کمیونٹی کی ہندو معاشرے میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد سے پیدا ہوا ہے‘ پیپلز پارٹی کے سندھ اور مسلم لیگ نواز کے پنجاب تک محدود ہونے سے تحریک انصاف ملک بھر کی واحد سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ایم کیو ایم اور اے این پی اپنے مخصوص نظریات کی وجہ سے ملک گیر سیاست میں اپنا مخصوص مقام رکھتی ہیں۔ نظریات کے مقابلے میں عوامی ایشوز کی سیاست کی تصویر کو دیکھتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں مہنگائی جیسے عوامی مسئلے کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو تبدیل ہونا پڑے۔ ماہ پارہ کمال کا کہنا تھا کہ اس موضوع کو ذہن میں رکھتے ہوئے بقول شاعر نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھئے منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے ‘تحریک پاکستان کے حوالے سے غور کیجئے آل انڈیا مسلم لیگ کا نعرہ کیا تھا‘ یہی نعرہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ‘ مملکت اسلام کے نام پر حاصل تو کرلی گئی مگر مملکت میں اسلامی قوانین کا نفاذ اب تک ایک سہانا خواب بن کر رہ گیا ہے‘ ہر گزرتا دن اس خواہش پر گرد کی ایک تہہ جما کر گزر جاتا ہے‘ 22 کروڑ عوام اس خواہش کی تکمیل کے حوالے سے روز جیتے ہیں روز مرتے ہیں‘ عوام کو آئے دن کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مسئلے میں الجھا کر ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے‘ عوام کا یہ حال ہے بقول غالب “چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں” 70 سال سے زایدکاعرصہ گزر گیا مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ابھی تک ہم اپنے رہبروں کو نہیں پہچان سکے۔عہدحاضر میں سیاست کا بڑے واضح طور پر یہ مطلب ہے کہ اپنے مقاصد کی تکمیل میں آنے والی ہر رکاوٹ کو یا تو گرا دیا جائے یا پھر خرید لیا جائے‘ چاہے اس کی ملک کو کوئی بھی قیمت چکانی پڑے‘ اس نظریے کی زندہ تفسیر کا مشاہدہ پوری قوم نے1971ء میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے ‘ پاکستانی سیاست کا نظریاتی ہونا یا ہوجانا ایک دیوانے کا صرف خواب ہی ہوسکتا ہے بقول غالب ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے۔ ہمارے ملک کا ہر نظام اپنے محور سے ہٹ چکا ہے مگر خواب دیکھنے پر تو کوئی پہرہ تو نہیں لگا سکتا۔ غالب کے دو اشعار حالات کا پتہ دیتے ہیں” گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرت تعمیر سو ہے””کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی” پاکستان میں سیاسی صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے کسی سیاستدان سے نظریاتی ہونے کے حوالے سے توقع وابستہ کر نا بالکل غالب کے اس شعر کی طرح ہے”ہم کو ان سے وفا کی ہے امید جو نہیں جانتے وفا کیا ہے “