لمحہ فکر: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی سالانہ کرپشن رپورٹ

409

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل عالمی سطح پر کام کرنے والا سب سے بڑا اینٹی کرپشن نیٹ ورک ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی، غیر سیاسی، غیر جماعتی، غیر منافع بخش، غیر سرکاری تنظیم ہے جس کا صدر مقام برلن، جرمنی میں واقع ہے۔ اس کی دنیا بھر میں 90 سے زائد شاخیں کام کر رہی ہیں۔ کراچی میں واقع ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے نیشنل چیپٹر میں سے ایک ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق ان کا ایک وژن ہے جس میں حکومت، سیاست، کاروبار، سول سوسائٹی اور عوام کی روز مرہ زندگی بدعنوانی سے پاک ہوں۔ ان کے مقاصد میں ’’ہمارا مشن پاکستان میں بدعنوانی سے نمٹنے اور حکومت، سیاست اور کاروبار کے ایک موثر اور شفاف نظام کے قیام کے لیے اداروں، قوانین اور طریقوں کو فروغ دینے اور ان کی ترقی کے لیے ایک شراکت دار سماجی تحریک کی تخلیق اور تقویت ہے‘‘۔ ہر سال کی طرح ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل دنیا بھر کے ممالک میں پائی جانے والی کرپشن کے حوالے سے سالانہ کرپشن انڈیکس جاری کرتی ہے۔ رواں ماہ جاری انڈیکس کے مطابق پاکستان کے حوالے سے ہوشربا اور انتہائی مایوس کن حقائق منظرعام پر آئے ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی جانب سے کرپشن پرسیپشن انڈکس 2021 کے مطابق پاکستان میں 2021 میں سال 2020 کی نسبت کرپشن میں بے پناہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ کرپشن پرسیپشن انڈکس 2020 کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں 124 ویں نمبر پر تھی جبکہ 2021 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کرپشن بڑھی ہے اور نئی درجہ بندی کے مطابق پاکستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں 140 ویں نمبر پر آئی ہے۔ جبکہ 2019 کی رپورٹ کے مطابق کرپشن کے حوالے سے پاکستان کی درجہ بندی 180 ممالک میں 120ویں نمبر پر تھی۔
یاد رہے کرپشن کی درجہ بندی کے حوالے سے 2018 میں پاکستان 117 ویں نمبر پر، 2017 میں بھی 117 ویں نمبر پر، 2016 میں 116 ویں نمبر پر، 2015 میں 168 ممالک میں 117 ویں نمبر پر، 2014 میں 175 ممالک میں 126 ویں نمبر پردرجہ بندی تھی۔ اسی طرح پاکستان پیپلز پارٹی کے دورحکومت کی بات کی جائے تو سال 2013 میں 175 میں 127ویں نمبر پر، 2012 میں 174 ممالک میں 139ویں نمبر پر، 2011 میں 183ممالک میں 134ویں نمبر پر، 2010 میں 178ممالک میں 143ویں نمبر پر، 2009 میں 180 ممالک میں 139ویں نمبر درجہ بندی تھی۔ گویا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں آج کے مقابلہ میں کم کرپشن پائی گی۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کے چیرمین وزیراعظم پاکستان عمران خان گاہے گاہے اپنی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان مسلم لیگ ن پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں قوم سے براہ راست ٹیلی فونک رابطہ کے دوران بھی عمران خان نے پاکستان مسلم لیگ ن کو حرف تنقید بنایا اور اس کی قیادت کو کرپٹ ترین قرار دیتے رہے۔ اسی طرح عمران خان بطور اپوزیشن لیڈر سابقہ حکومتوں پر کرپشن کی طعنہ زنی کرتے رہے ہیں۔ یقینا پی ٹی آئی کی جانب سے اس تنظیم کی ساکھ پر کوئی انگلی بھی نہیں اُٹھا سکتا کیونکہ عمران خان کے بطور اپوزیشن لیڈر بیانات آج بھی یوٹیوب کی زینت ہیں جن میں عمران خان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن پرسیپشن انڈکس کا حوالہ دیکر حکومت پر تنقید کیا کرتے تھے۔ اور سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے عمران خان کے انہی بیانات کو اپنی ویب سائٹ کے صفحہ اول پر نمایاں طور پر جگہ دی ہے تاکہ جو شخص بھی کرپشن پرسیپشن انڈکس کا مطالعہ کرنے کے ارادے سے ویب سائٹ کا وزٹ کرے وہ عمران خان کے ان بیانات کو ضرور دیکھے۔ مگر اسی ادارہ کی جانب سے جاری رپورٹس کے مطابق پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کرپشن انڈیکس کے مطابق پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہونا انتہائی افسوسناک پہلو ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے احتساب کے مشیر شہزاد اکبر صاحب نے استعفا دے دیا جبکہ میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے شہزاد اکبر کی ناقص کارکردگی کی بنا پر استعفا دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یہ پہلو انتہائی افسوسناک اور شرمناک ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلہ میں پاکستان کی درجہ بندی میں پورے 16 نمبر تنزلی سامنے آئی ہے۔ یہ بات بھی اب صیغہ راز نہیں رہی کہ عمران خان کی زیر قیادت حکومت وقت سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن کا کوئی ایک مقدمہ بھی عدالتوں میں ثابت نہ کرسکی۔ حکومتی وزراء مشیران ہاتھوں میں دستاویزات لہرا لہرا کا پریس کانفرنسیںاور میڈیا ٹاکس توکرتے دکھائی دیے مگر عدالتوں میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے جس کی بناء پر سابقہ حکمرانوں کے خلاف کرپشن ثابت نہ ہوپائی۔ جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی حکومت میں کرپشن کے میگا اسکینڈلز میڈیا کی زینت بنتے رہے کبھی گندم اسکینڈل، کبھی چینی اسکینڈل تو کبھی ادویات، پٹرول، کھاد، ایل پی جی، رنگ روڈ اسکینڈل کی بازگشت سامنے آئی مگر ان اسکینڈلوں پر مٹی پائو حکمت عملی کے تحت خاموشی اختیار کرلی گئی۔ گندم و چینی اسکینڈلز پر خود وزیراعظم عمران خان نے کمیٹیاں تشکیل دیں مگر اس کے نتائج صفر بٹا صفر دیکھنے کو ملے۔ بحیثیت اک عام پاکستانی ہم سب کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی جو کرپشن فری پاکستان بنانے کا نعرہ لیکر مسنداقتدار پر براجمان ہوئی اسی پارٹی کی حکومت میں کرپشن میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ عمران خان کے لیے یہ لمحہ فکر ہونا چاہیے اور ان کو سب اچھا کی رپورٹ دینے والے وزراء اور مشیران کو اپنے قریبی حلقہ سے ہٹاکر پارٹی سے وفادار ساتھیوں کو آگے لانا چاہیے۔ عمران خان ابھی بھی وقت ہے ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔ اللہ کریم پاکستان اور پاکستانیوں کے حال پر رحم فرمائے۔ آمین ثم آمین