وفات صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ

794

سیدنا صدیق اکبرؓ رسول اللہؐ کی وفات کے بعد صرف دو برس تین مہینے اور گیارہ دن زندہ رہے۔ ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ کے فراق کا صدمہ آپ سے برداشت نہیں ہوا۔ ہر روز لاغر اور نحیف ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ سفر آخرت اختیارکرلیا۔ آپ نے وفات نبوی کے بعد سب کو تسکین کا پیغام سنایا مگر آپ کے دل کی بے قراری کم نہ ہوئی۔
ایک روز درخت کے سائے میں ایک چڑیا کو اچھلتے اور پھدکتے دیکھا، ایک ٹھنڈی سانس بھرکر اس سے فرمایا: ’’اے چڑیا! تُو کس قدر خوش نصیب ہے، درختوں کے پھل کھاتی اور ٹھنڈی چھاؤں میں خوش رہتی ہے، پھر موت کے بعد تو وہاں جائے گی جہاں تجھ سے کچھ باز پرس نہ ہوگی۔ اے کاش! ابوبکرؓ بھی اس قدرخوش نصیب ہوتا۔ کبھی فرماتے! اے کاش میں درخت ہوتا، کھا لیا جاتا یا کاٹ دیا جاتا۔ کبھی فرماتے: اے کاش! میں سبزہ ہوتا اور چارپائے مجھے چرلیتے۔ ان ارشادات درد سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ رحلت نبوی کے بعد صدیق اکبرؓ کی درد وگذار کی کیفتیں کہاں تک پہنچ چکی تھیں۔
آغازعلالت
ابن شہابؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کے پاس ہدیے میں گوشت آیا تھا۔ آپ حارثؓ بن کلدہ کے ساتھ اس کو تناول فرما رہے تھے کہ حارث نے کہا: یاامیرالمومنین! آپ نہ کھائیں مجھے اس میں زہر کی آمیزش کا اشتباہ ہو رہا ہے۔ آپ نے ہاتھ کھینچ لیا، مگر اسی روز سے دونوں صاحب مضمحل رہنے لگے۔ 7 جمادی الاخری (دوشنبہ) 13ھ کوآپ نے غسل فرمایا تھا۔ اسی روز سردی سے بخار ہوگیا اور پھر نہیں سنبھلے جب تک جسم پاک میں آخری توانائی باقی تھی، مسجد نبوی میں تشریف لاتے رہے اور نمازپڑھاتے رہے لیکن جب مرض نے غلبہ پالیا توسیدنا عمرؓ کو بلا کر ارشاد فرمایا کہ آئندہ آپ نماز پڑھائیں۔
بعض صحابہؓ نے حاضر ہوکر عرض کیا اگر آپ اجازت دیں تو ہم کسی طبیب کو بلاکر آپ کو دکھادیں۔ فرمایا: طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے۔ وہ پوچھنے لگے: اس نے کیا کہا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا: انی فعال لمایرید۔ (وہ کہتا ہے: میں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔)
سیدنا عمرؓ کا انتخاب
جب طبیعت زیادہ کمزور ہوگئی تو آپ کو رسول اللہؐ کے جانشین کا فکر پیدا ہوا۔ آپ چاہتے تھے کہ مسلمان کسی طرح فتنۂ اختلاف سے مامون رہ جائیں۔ اس لیے رائے مبارک یہ ہوئی کہ اہل الرائے صحابہؓ کے مشورے سے خود ہی نامزدگی کردیں۔ پہلے آپ نے عبدالرحمن بن عوفؓ کو بلایا اور پوچھا: عمرؓ کے بارے میں آپ کی کیارائے ہے؟ انہوں نے عرض کیا: آپ ان کی نسبت جنتی بھی اچھی رائے قائم کرلیں، میرے نزدیک وہ اس سے بھی زیادہ بہتر ہیں، ہاں ان میں کسی قدر تشدد ضرور ہے۔
سیدنا صدیقؓ نے جواب میں فرمایا: ان کی سختی اس لیے تھی کہ میں نرم تھا جب ان پر ذمے داری پڑجائے گی تو وہ ازخود نرم ہوجائیں گے۔ عبدالرحمن بن عوفؓ رخصت ہوگئے تو سیدنا عثمانؓ کو طلب فرمایا اور رائے دریافت کی۔ عثمانؓ نے عرض کیا: آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ فرمایا: پھر بھی آپ کی رائے کیا ہے؟ عرض کیا: ’’میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمرؓ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ان کی مثل ہم لوگوں میں اور کوئی نہیں‘‘۔
سیدنا سعید بن زیدؓ اور اسید بن حضیرؓ سے بھی استفسار فرمایا۔ اسیدؓ نے کہا: عمرؓ کا باطن پاک ہے، وہ نیکوکاروں کے دوست اور بدوں کے دشمن ہیں۔ مجھے ان سے زیادہ قوی اور مستعد شخص نظر نہیں آتا۔ سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسی طرح یہ سلسلہ جاری رکھا اور مدینہ میں خبر عام ہوگئی کہ آپؓ سیدنا عمرؓ کو اپنا جانشین مقرر فرما رہے ہیں۔ اس پرسیدنا طلحہؓ آپ کے پاس آئے اور کہا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی موجودگی میں عمرؓ کا ہم لوگوں سے کیا برتاؤ تھا؟ جب وہ خلیفہ ہوگئے تو معلوم نہیں کیا کریں؟ آپ بارگاہ الہی میں چلے جارہے ہیں، غور کرلیجیے، آپ اللہ تعالی کو اس کا کیا جواب دیں گے؟ میں خدا سے کہوں گا میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو مقرر کیا ہے جو سب سے اچھا تھا۔ پھر فرمایا: جو کچھ میں اب کہہ رہا ہوں، عمرؓ اس سے بھی زیادہ اچھے ہیں۔
وصیت نامہ
تکیمل مشارت کے بعد آپ نے سیدنا عثمانؓ کو طلب کیا اور فرمایا: عہد نامہ خلافت لکھیے۔ ابھی چند سطریں لکھی گئی تھیں کہ آپ کو غش آگیا۔ سیدنا عثمانؓ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیے کہ ’’میں عمرؓ کو مقرر کرتا ہوں‘‘۔ تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو سیدنا عثمانؓ سے فرمایا: جوکچھ لکھا ہے، وہ پڑھ کر سناؤ۔ عثمانؓ نے ساری عبارت پڑھ دی تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور کہا: ’’خدا تعالی تم کو جزائے خیر عطا فرمائے‘‘۔ (الفاروق)
وصیت نامہ تیار ہوگیا تو عثمانؓ اور ایک انصاری کے ہاتھ مسجد میں بھیج دیا تاکہ مسلمانوں کو سنادیں اور خود بھی بالا خانے پر تشریف لے گئے۔ شدت ضعف کے باعث اپنے قدموں پر کھڑے نہیں ہوسکتے تھے۔ اس واسطے ان کی بی بی اسماءؓ دونوں ہاتھوں سے سنبھالے ہوئے تھیں۔ نیچے آدمی جمع تھے، ان سے مخاطب ہوکر فرمایا:
’’کیا تم اس شخص کو قبول کرو کے جسے میں تم پر خلیفہ مقررکروں۔ خداکی قسم!
میں نے غور وفکر میں ذرا برابر کمی نہیں کی، اس کے علاوہ میں نے اپنی کسی قریبی وعزیز کو بھی تجویز نہیں کیا۔ میں عمر بن خطابؓ کو اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں جو کچھ میں نے کیا ہے، اسے تسلیم کرلو‘‘۔
وصیت نامے کے الفاظ یہ تھے:بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ یہ ابوبکر بن ابوقحافہؓ کا وصیت نامہ ہے جو اس نے آخر وقت میں دنیا میں جبکہ وہ اس جہان سے کوچ کر رہا ہے اور شروع وقت آخرت میں جبکہ وہ عالم بالا میں داخل ہو رہا ہے، قلمبند کرایا ہے۔ یہ ایسے وقت کی نصیحت ہے جس وقت کافر ایمان لے آتے ہیں، بدکار سنبھل جاتے ہیں اور جھوٹے حق کے روبرو گردن جھکادیتے ہیں۔ میں نے اپنے بعد عمر بن خطابؓ کو تم پر امیر مقرر کیا ہے، لہذا تم ان کا حکم ماننا اور اطاعت کرنا۔ میں نے اس معاملے میں اللہ کی، رسول کی، اسلام کی، خود اپنی اور آپ لوگوں کی خدمت کا پورا لحاظ رکھا ہے اور کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اب اگر عمرؓ عدل کریں گے تو ان کے متعلق میرا علم اور حسن ظن یہی ہے، اگر وہ بدل جائیں تو ہر شخص اپنے کیے کا جواب دے ہے۔ میں نے جوکچھ بھی کیا ہے نیک نیتی سے کیا ہے اور غیب کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں جو لوگ ظلم کریں گے، وہ اپنا انجام جلد دیکھ لیں گے۔ والسلام علیک ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
آخری وصایا اور دعا
اس کے بعد آپ نے سیدنا عمرؓ کو خلوت میں بلایا اور مناسب وصیتیں کیں، پھر ان کے لیے بارگاہ خداوندی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھادییے اور کہا:
’’خداوند! میں نے یہ انتخاب اس لیے کیا ہے تاکہ مسلمانوں کی بھلائی ہوجائے۔ مجھے یہ خوف تھا کہ کہ وہ کہیں فتنہ نفاق وفساد میں مبتلا نہ ہوجائیں۔
اے مالک! جو کچھ میں نے کیا تو اسے بہتر جانتا ہے۔ میرے غور وفکر نے یہی رائے اور اس لیے میں نے ایک ایسے شخص کو والی مقرر کیا ہے جو میرے نزدیک سب سے زیادہ مستقل مزاج ہے اور سب سے زیادہ مسلمانوں کی بھلائی کا آرزو مند ہے۔ یاللہ! میں تیرے حکم سے اس دنیائے فانی کو چھوڑتا ہوں۔ اب تیرے بندے تیرے حوالے، وہ سب تیرے بندے ہیں، ان کی باگ تیرے ہاتھ میں ہے۔ یااللہ! مسلمانوں کو صالح حکم عنایت فرما۔ سیدنا عمرؓ کو خلفائے راشدین کی صف میں جگہ عطا کر اور اس کی رعیت کو صلاحیت سے بہرہ مند فرما‘‘۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کی ولایت وقبولیت کا اعجاز تھا کہ اس قدر اہم، کٹھن اور پیچیدہ معاملہ اس قدر سہولت اور خوش اسلوبی سے طے ہوگیا۔ پہلے اور پچھلے مسلمانوں کا یہ فتوی ہے کہ خلافت پر عمرفاروقؓ کا تقررسیدنا صدیق اکبرؓ کا اسلام اور اس امت پر اس قدر بڑا احسان ہے کہ قیامت تک اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ سیدنا عمرؓ نے اپنے خلافت کے چند سالوں میں جو کچھ کیا، اس کی صحیح حیثیت یہ ہے کہ اسلام کی طاقت فرش زمین پر بکھری پڑی تھی، آپ نے اسے جمع کیا اور پھر عرش عظیم تک پہنچا دیا۔
حسابات دنیا کی بے باقی
سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ سیدنا صدیق اکبرؓ نے غابہ کی 20 وسق کجھوریں مجھے ہبہ کردی تھیں جب مرض کا غلبہ ہونے لگا تو ارشاد فرمایا: بیٹی! میں تمہیں ہر حال میں خوش دیکھنا چاہتا ہوں، تمہارے افلاس سے مجھے دکھ ہوتا ہے اور تمہاری خوشحالی سے مجھے راحت ملتی ہے۔ غابہ کی کھجوریں میں نے ہبہ کی تھیں۔ اگر تم نے ان پر قبضہ کرلیا ہو تو خیر ورنہ میری موت کے بعد وہ کھجوریں میرا ترکہ ہوں گی، تمہارے دوسرے بہن بھائی ہیں، ان کھجوروں کو ازروئے قرآن ان سب میں تقسیم کردینا۔سیدہ صدیقہؓ نے فرمایا: اے میرے بزرگ باپ! میں حکم والا کی تعمیل کروں گی۔ اگر اس سے بہت زیادہ مال ہوتا تو بھی میں آپ کے ارشاد پر اسے چھوڑ دیتی۔
وفات کے بعدکچھ عرصہ پہلے ارشاد فرمایا: بیت المال کے وظیفے کا حساب کیا جائے جو میں نے آج تک وصول کیا ہے۔ حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ کل 6 ہزار درہم یا 15 سو روپے دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا: میری زمین فروخت کرکے یہ تمام رقم ادا کردی جائے۔ اسی وقت زمین فروخت کی گئی اور رسول امینؐ کے یار غارکے ایک ایک بال کو بیت المال کے بار سے سبکدوش کردیا گیا جب یہ ادائیگی ہوچکی تو ارشاد فرمایا: تحقیقات کی جائے کہ خلافت قبول کرنے کے بعد میرے مال میں کیا کچھ اضافہ ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ پہلا اضافہ ایک حبشی غلام کا ہے جو بچوں کو کھلاتا ہے اور مسلمانوں کی تلواریں صیقل بھی کرتا ہے۔ دوسرا اضافہ ایک اونٹنی کا ہے جس پر پانی لایا جاتا ہے۔ تیسرا اضافہ ایک سوا روپے کی چادر کا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ میری وفات کے بعد یہ تینوں چیزیں خلیفہ وقت کے پاس پہنچادی جائیں۔
رحلت مبارک کے بعد جب یہ سامان خلیفہ سیدنا فاروقؓ کے سامنے آیا تو آپ روپڑے اور کہا: یا ابوبکرؓ تم اپنے جانشینوں کے واسطے بہت دشوار کرگئے ہو۔
آخری سانس میں ادائے فرض
سیدنا صدیق اکبرؓ کی حیات پاک کا آخری دن تھا کہ سیدنا مثنیؓ نائب سالار عراق آپہنچے۔ اس وقت امیرالمومنین جان کنی کے آخری مراحل سے گزر رہے تھے۔ مثنیؓ کی آمد معلوم ہوئی تو کسی خطرے کا احساس کرکے انہیں اسی وقت بلا بھیجا۔ انہوں نے محاذ جنگ کے تمام حالات تفصیل سے بیان کیے اور کہا کہ کسری نے اپنی تازہ دم فوجیں محاذ عراق پر بھیج دیں ہیں۔ حالات سن کر اسی حال میں عمر فاروقؓ کو طلب کرکے ارشاد فرمایا: عمرؓ! جو کچھ میں کہتا ہوں اسے سنو اور اس پر عمل کرو۔ مجھے امید ہے کہ آج میری زندگی ختم ہوجائے گی۔ اگر دن میں میرا دم نکلے تو شام سے پہلے اور اگر رات میں نکلے تو صبح سے پہلے مثنیؓ کے لیے کمک بھیج دینا۔
پھر فرمایا: عمرؓ! کسی بھی مصیبت کی وجہ سے دین اسلام کی خدمت اور حکم ربانی کی تعمیل کو کل پر ملتوی نہ کرنا۔ سیدنا محمد مصطفیؐ کی وفات سے بڑھ کر ہمارے لیے اور کونسی مصیبت ہوسکتی تھی مگر تم نے دیکھا کہ اس روز بھی جو کچھ میں نے کرنا تھا، میں نے کردیا۔
اللہ کی قسم! اگر میں اس روز حکم خداوندی کے تعمیل سے غافل ہوجاتا تو اللہ تعالی ہم پر تباہی کی سزا مسلط کردیتا اور مدینہ کے گوشے گوشے میں فساد کی آگ بھڑک اٹھتی۔ اگر اللہ تعالی مسلمانوں کو شام میں کامیابی عطا فرمائے تو پھر خالدؓ کی فوجوں کو عراق کے محاذ پر بھیج دینا، اس لیے کہ وہ آزمودہ کار بھی ہیں اور عراق کے حالات سے باخبر بھی ہیں۔
عائشہ صدیقہؓ کی درد مندیاںانتقال کے روز دریافت فرمایا: سیدنا محمدؐ نے کس روز رحلت فرمائی تھی؟ لوگوں نے کہا: دوشنبہ (پیر) کے روز۔ ارشاد فرمایا: میری آرزو بھی یہی ہے کہ میں آج رخصت ہوجاؤں۔ اگر اللہ تعالی اسے پورا کردے تو میری قبر آپؐ کی مرقد مبارک ساتھ بنائی جائے۔ اب وفات کا وقت قریب آرہا تھا، سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے دریافت فرمایا: سیدنا محمدؐ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟ عرض کیا: تین کپڑوں کا۔ ارشاد فرمایا: میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہوں۔ دو یہ چادریں جو میرے بدن پر ہیں، دھولی جائیں اور ایک کپڑا بنالیا جائے۔
سیدہ صدیقہؓ نے درمندانہ کہا: ابا جان! ہم اس قدر غریب نہیں ہیں کہ نیا کفن بھی نہ خرید سکیں۔ ارشاد فرمایا: ’’بیٹی! نئے کپڑے کی مردوں کی نسبت زندوں کو زیادہ ضرورت ہے، میرے لیے یہی پھٹا پرانا ٹھیک ہے‘‘۔
موت کی ساعتیں لمحہ بہ لمحہ قریب آرہی تھی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ اس ڈوبتے ہوئے چاند کے سرہانے بیٹھی تھیں اور آنسو بہا رہی تھیں۔ غم آلود اور حسرت انگیز خیالات آنسوؤں کے ساتھ ساتھ دماغ کی پہنائی سے اتر رہے تھے اور زبان سے بہہ رہے تھے۔ عائشہؓ نے یہ شعر پڑھا ؎
’’بہت سی نورانی صورتیں ہیں جن سے بادل بھی پانی مانگتے تھے، وہ یتیموں کے فریاد رس تھے اور بیواؤں کے پشت پناہ تھے‘‘۔
یہ سن کر سیدنا صدیقؓ نے آنکھیں کھول دیں اور فرمایا: میری بیٹی! یہ رسول اللہؐ کی شان تھی۔
سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے دوسرا شعر پڑھا ؎
’’قسم ہے تیری عمر کی جب موت کی ہچکی لگ جاتی ہے تو پھر کوئی زر ومال کام نہیں دیتا‘‘۔
ارشاد فرمایا: یہ نہیں اس طرح کہو۔ جاء ت سکرۃ الموت بالحق ذلک ماکنت منہ تحید (موت کی بے ہوشی کا صحیح وقت آگیا، یہ وہ ساعت ہے جس سے تم بھاگتے تھے۔)
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نزع کے وقت میں اپنے باپ کے سرہانے گئی تو یہ شعر پڑھا۔ ترجمہ
’’جس کے آنسو ہمیشہ رکے ہیں، ایک دن وہ بھی بہہ جائیں گے۔
ہر سوار کی ایک منزل ہوتی ہے اور ہر پہننے والے کو ایک کپڑا دیا جاتا ہے‘‘۔
فرمایا: بیٹی اس طرح نہیں، حق بات اسی طرح ہے، جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا ہے۔ جاء ت سکرۃ الموت بالحق ذلک ماکنت منہ تحید (موت کی بے ہوشی کا صحیح وقت آگیا، یہ وہ ساعت ہے جس سے تم بھاگتے تھے۔)
انتقال پاک
پاک زندگی کا خاتمہ اس کلام پاک پر ہوا۔ رب توفنی مسلمان والحقنی بالصلحین۔ (یاللہ! مجھے مسلمان اٹھا اور اپنے نیک بندوں میں شامل کر۔)
جب روح اقدس نے پرواز کی تو 22 جمادی الآخر13ھ تاریخ تھی۔ دوشنبہ کا دن، مغرب اور عشاء کا درمیانی وقت، عمر شریف 63 سال تھی۔ ایام خلافت 2 سال 3 مہینے اور 11 دن۔ آپ کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیسؓ نے غسل دیا۔ عبدالرحمن بن ابوبکرؓ جسم اطہر پر پانی بہاتے تھے۔ سیدنا فاروقؓ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ رسول اللہؐ کے مرقد مبارک کے ساتھ قبر شریف اس طرح کھودی گئی کہ آپ سر مبارک سیدنا رحمۃ العالمینؐ کے دوش پاک کے ساتھ رہے اور قبروں کے تعویز برابر برابر آجائیں۔ سیدنا عمرؓ، طلحہؓ، عثمان اور عبدالرحمن بن عوفؓ نے میت پاک کو آغوش لحد میں اتارا اور ایک ایسی برگزیدہ شخصیت کو جو رسول دوجہاںؐ کے بعد امت مسلمہ کی سب سے زیادہ مقبول، بزرگوار اور صالح شخصیت تھی، ہمیشہ کے چشم جہاں سے اوجھل کردیا گیا۔
اناللہ واناالیہ راجعون