اہل کراچی کے آرام کے لیے بے آرام ہونے والے

866

کراچی کا ہم معنی اگر کچھ ہے تو وہ سمندر ہے۔ کراچی میں سمندر رہتا ہے۔ انسانوں کا سمندر، ناقابل فہم حیرانی کا سمندر، تھکے ماندوں کا سمندر، بے بسوں کا سمندر، المیوں کا سمندر، خوشیوں کا سمندر، دھیمی بڑ بڑاتی آوازوں کا سمندر، لڑتی جھگڑتی آوازوں کا سمندر، مال اسباب کا سمندر، چمک اور رسائی کا سمندر، چلتے اور گزرتے ہوئے لوگوں کا سمندر، فکر مند اور چپ چاپ عمارتوں کا سمندر، گونجتے فلیٹوں کا سمندر، کچی آبادیوں میں رہتی لمبی اور بہت لمبی زندگیوں کا سمندر، محبت بھری نفرت اور نفرت بھری محبت کا سمندر۔
سہراب گوٹھ سے چلتی کوچوں کو حسرت بھری آنکھوں سے دیکھنے والوں کا کراچی، اٹھتے بیٹھتے اپنے گائوں اور دیہاتوں کا دم بھرنے والوں کا کراچی، کراچی کو ایک بیسوا سمجھنے والوں کا کراچی، کراچی کو جیون ساتھی سمجھنے والوں کا کراچی، ایم اے جناح روڈ سے روزانہ قیدیوں کی طرح گزرنے والوں کا کراچی، ٹریفک جام میں پھنسے کراچی کو برابھلا کہنے والوں کا کراچی، مکینوں سے شرف پانے والے مکانوں کا کراچی، کراچی کے دھوئیں میں اپنی جنم بھومی کی معطر ہوائوں کو یاد کرنے والوں کا کراچی، وسیع وعریض کراچی میں اپنے پنڈ کی گلیوں کو یاد کرنے والوں کا کراچی، ہر روز گرومندر اور قائداعظم کے مزار سے گزرتے، مناظر کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنے والوں کا کراچی، لود شیڈنگ کی اذیت میں حبس زدہ گائوں کو حسرت سے یاد کرنے والوں کا کراچی، قدم قدم پر موجود دستر خوانوں میں، اِدھر اُدھر دیکھتے پیٹ کا دوزخ بھرنے والوں کا کراچی، سرکاری دفتروں اور اسپتالوں میں جھڑکیاں اور بدکلامی سہتے مجبوروں اور بے بسوں کا کراچی، روشنیوں کا کراچی، قاتلوں اور مقتولوں کا کراچی، ہر حکومت کی آنکھ میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہوا کراچی۔
’’تمہارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں‘‘ کہنے والوں کی دوسری تیسری نسلوں کا کراچی، کراچی میں عمارتوں اور سڑکوں کی بنیادیں رکھنے والے، کھدائی کرنے والے، ٹرانسپورٹ چلانے والے، اجاڑ مارکیٹوں کو آباد کرنے والے، کڑاہی گوشت، دودھ پتی چائے اور پراٹھے کے ہوٹل چلانے والے پٹھانوں کا کراچی، ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کا کھلے دل سے استقبال کرنے سندھیوں کا کراچی، بلوچوں کا کراچی، پنجابیوں کا کراچی، سرائیکیوں کا کراچی، بنگالیوں کا کراچی، بہاریوں کا کراچی۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ ان سب کا، کراچی کے ایک ایک فرد کے حق کا مقدمہ لڑتی ہوئی جماعت اسلامی کا کراچی، عبدالستار افغانی اور نعمت اللہ خان جیسے دیانت دار اور بے مثل نمائندوں کا کراچی، جہاں اداسیاں اور نا امیدیاں دہائیوں سے خیمہ زن ہیں وہاں امیدوں کا استعارہ، جماعت اسلامی کا کراچی۔ تیز ہوائوں، گردو غبار کے طوفانوں سردی، اور موسم کی تمام تر سختیوں کے باوجود قریب قریب ایک ماہ سے نظم وضبط اور استقامت سے دھرنا جاری رکھنے والی جماعت اسلامی کا کراچی۔
جنرل ایوب خان سے لے کر تا حال ہر حکومت کراچی کے نقصان اور بربادی کی خواہاں رہی ہیں لیکن اہل کراچی کے حقوق کو جس طرح پیپلز پارٹی نے ڈائنا مائیٹ کیا ہے اس کی مثال ملنا ممکن نہیں۔ 1971ء سے پیپلز پارٹی سندھ کی نمائندہ جماعت ہے۔ نصف صدی گزر گئی سندھ اور اہل سندھ کی حالت سب کے سامنے ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی دیہی سندھ کو شہری سندھ کے برابر لانے کے لیے وہاں، اسکولوں، کالجوں اور یونی ورسٹیوں کا جال بچھاتی، لوگوں کو روزگار کے مواقع مہیا کرنے کے لیے کوششیں کرتی اس نے شہری سندھ خصوصاً کراچی کے نوجوانوں کی حق تلفی کا مسلسل بندوبست کرنے کے لیے کوٹا سسٹم متعارف کروادیا۔ یوں اہلیت رکھنے کے باوجود کراچی کے نوجوان تعلیمی اداروں میں داخلوں اور سرکاری دفاتر میں نوکریوں سے محروم کردیے گئے۔ ساتھ ہی بدترین لسانی عصبیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اردو سندھی زبان کے جھگڑے کھڑے کردیے۔ بھٹو نے کوٹا سسٹم دس سال کے لیے متعارف کروایا تھا۔ بھٹو کی پھانسی کے ردعمل میں سندھیوں کی نفرت کے ازالے کے لیے جنرل ضیا الحق نے کوٹا سسٹم میں بیس سال کا اضافہ کرکے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھ دی۔
گزشتہ بیس برس سے سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ شہر قائد سے اس کی دلچسپی کا ایک ہی عنوان ہے اور وہ ہے اس کی بربادی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج یہاں بجلی ہے، نہ گیس اور پانی۔ کراچی شہر نہیں کوڑے کرکٹ کا ڈھیر ہے۔ مستقبل قریب یا بعید میں کسی صورت اہل کراچی کو ان کی آبادی کے تناسب سے ترقیاتی بجٹ میں حصہ نہ مل جائے مردم شماری میں کراچی کی آبادی کم ظاہر کی گئی۔ محض ایک کروڑ 49لاکھ دس ہزار۔ جس کا فوری نتیجہ یہ نکلا کہ کراچی کو فراہمی آب کے منصوبے کے فور کے فیز ٹو کی منظوری نہ ہوسکی کیونکہ اتنی آبادی کی کفالت کے لیے کے فور کا فیز ون ہی کا فی ہے۔ 810ملین گیلن پانی روزانہ۔ اہل کراچی کے ساتھ یہ زیادتی کسی جماعت کے لیے احتجاج کا باعث نہ بنی سوائے جماعت اسلامی کے۔ حافظ نعیم الرحمن اس معاملے پر احتجاج کا استعارہ بن گئے۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کی آبادی کسی طور ڈھائی کروڑ سے کم نہیں ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکو متیں اس شہر کے ساتھ جو سلوک کررہی ہیں وہ شرمناک ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کے فور منصوبہ وفاقی اور صوبائی حکومت کا منصوبہ نہیں بلکہ مرحوم نعمت اللہ خان کی اہل کراچی کے لیے فکر کا نتیجہ تھا۔ یہ منصوبہ اگر 2010 میں بروقت مکمل ہوجاتا تو آج کراچی کسی دشت کا منظر نہ ہوتا۔
بلدیاتی قانون کے سامنے آنے کے بعد جماعت اسلامی نے دوسری جماعتوں کی طرح محض رسمی احتجاج نہیں کیا بلکہ سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دے کر اس مسئلے کو پورے ملک کا مسئلہ بنادیا۔ یہ جماعت کا حسن انتظام اور اخلاص ہے کہ موسم کی تمام تر شدت کے باوجود دھرنے کی حدت میں اضافہ دراضافہ ہی ہورہا ہے۔ اس دھرنے نے اہل کراچی کے ساتھ پیپلز پارٹی کی زیادتیوں اور سوتیلے سلوک کو کھول کررکھ دیا ہے۔ آخر کیا جواز ہے کہ سندھ میں اوسطاً20ہزار کی آبادی کے لیے ایک یونین کونسل ہے جب کہ کراچی میں 65ہزار کی آبادی کے لیے ایک یونین کونسل۔ کیا کراچی میں بونے رہتے ہیں اور اندرون سندھ دیو ہیکل لوگ۔ یونین کونسل کو سالانہ کم ازکم 60لاکھ روپے ملتے ہیں۔ کراچی میں جتنے افراد کے لیے 60لاکھ روپے کا ترقیاتی بجٹ رکھا جائے گا۔ اندرون سندھ اتنے ہی افرادکے لیے بجٹ میں مختص رقم ایک کروڑ 80لاکھ روپے ہوگی۔
سندھ حکومت سے جماعت اسلامی کا ایک مطالبہ یہ ہے کہ جس صوبائی حکومت نے کراچی واٹربورڈ پر قبضہ کرکے اہل کراچی کو پانی کے قطرے قطرے سے دور کررکھا ہے۔ وہ واٹر بورڈ میئر کراچی کے سپرد کیا جائے۔ اسی طرح کراچی کو تقریباً5ہزار بسوں کی ضرورت ہے جب کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے پچھلے 14سال میں صرف دس بسیں چلائی ہیں کیا اس کارکردگی کے بعد سندھ حکومت کا یہ حق رہتا ہے کہ پانی اور ٹرانسپورٹ کا نظام اس کی تحویل میں رہنے دیا جائے۔ کراچی میں تین ہزار سرکاری اسکول ہیں جو پہلے سٹی ناظم کی تحویل میں تھے۔ نئے قانون کے بعد کے ایم سی کے پاس محض چند سو اسکول رہ جائیں گے۔ اسی طرح عباسی شہید اسپتال سمیت کراچی کے ایک درجن سے زائد چھوٹے بڑے اسپتالوں اور لاتعداد ڈسپنسریوں پر سندھ حکومت اپنا قبضہ جاری رکھنا چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی کا دھرنا اہل کراچی کے ان تمام حقوق کی بازیابی کے لیے ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی حریف ہے اور صوبائی حکومت شہری حکومت کی۔ یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا عطا کردہ نظام ہے جس میں ہر طرح کے انتظام کا ذمے دار صرف ایک حکمران ہوتا ہے۔ وفاقی، صوبائی یا شہری حکومت کے امتیاز کے بغیر دریائے فرات کے کنارے مرنے والے کتے کا، ہر اچھے برے کا، ایک ذمے دار، ایک جواب دہ۔ اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی۔