صدارتی نظام کی بازگشت

404

موسم سرما میں جب ملک بھر میں موسم انتہائی سرد ہوچکا ہے اور عوام سردی کے مزے لیتے ہوئے گرم کمبلوں میں دبکے پڑے ہیں۔ ایسے میں شہر اقتدار کا موسم گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے۔ مارچ میں اپوزیشن کی جانب سے مارچ کے پروگرام نے گرما گرمی میں اور تیزی پیدا کی تو صدارتی نظام کی بازگشت شروع ہوگئی۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام اول روز سے رائج ہے لیکن پاکستان نے اپنے قیام کے 74برسو ں میں سے 35سال صدارتی نظام کے تحت ہی گزارے ہیں۔ سب سے پہلے ایوب خان نے گیارہ سال پھر اس کے بعد یحییٰ خان چار سال، ضیاء الحق دس سال اور پھر پرویز مشرف گیارہ سال تک صدارتی نظام کے نام پر ڈکٹیٹر شپ قائم کی اور ان حکمرانوں نے پاکستان کو بحران میں مبتلا کرکے ملک وقوم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ ان ہی چاروں ادوار میں پہلے ایوب خان کے دور میں پاکستان کے دو دریا بھارت کے حوالے کیے گئے۔ یحییٰ خان آئے تو ملک دولخت ہوا، ضیاء الحق کے دور میں کلاشنکوف کلچر پروان چڑھا اور پرویز مشرف نے امریکا کی جنگ میں کود کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا اور امریکا کے ہاتھوں پاکستان اور افغانستان کی سالمیت کا سودا کیا اور چند ٹکوںکی خاطر قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کو بھی بیچ ڈالا۔ جس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ پاکستان میں جب بھی صدارتی نظام آیا اس نے پاکستان کو تباہی اور بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا ہے۔ دوسری جانب اگر پارلیمانی نظام کا بھی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ پارلیمانی نظام بھی پاکستان میں بری طرح ناکام رہا ہے اور یہ جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ دارو ںکے ہاتھوںکھلواڑ بن گیا ہے اور پیسے کی چمک نے اس نظام کو اپنی مٹھی میں جکڑا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کا الیکشن کم از کم 20سے 30کروڑ لگائے بغیر جیتا نہیں جا سکتا اور جو فرد اسمبلی میں 20اور 30کروڑ روپے لگا کر آئے گا تو وہ پہلی فرصت میں الیکشن میں اپنی لگائی گئی رقم وصول کرے گا پھر عوام کی خدمت کی بات ہوگی۔ جس کے نتیجے میں کرپشن، کک بیک، شوگر، آٹا، ایل پی جی کے اسکینڈل رونما ہی ہوں گے۔
1973 کا آئین ایک متفقہ آئین تھا اور بڑی محنت مشقت کے بعد یہ آئین بنا یا گیا تھا۔ ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے نام پر اس کا حلیہ بگاڑا اور بعد میں پرویزمشرف نے ایمرجنسی لگا کر اسے مفلوج کر دیا تھا اور آج بھی یہ گھنائونا کھیل ایک بار پھر کھیلا جا رہا ہے اور ملک میں صدارتی نظام قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اول بات یہ ہے کہ پاکستان کی غریب اور مظلوم عوام کو تو دونوں ہی نظام نے کچھ نہیں دیا ہے۔ صدارتی نظام کے نام پر اگر فرد واحد کی ڈکٹیٹر شپ قائم ہوئی تو نام ونہاد پارلیمانی نظام کے نام پر لوٹ مار، اقرباء پروری، کرپشن کا وہ نظام قائم ہوا کہ الامان الحفیظ ان لٹیروں نے پیسے کی چمک کے ذریعے ہر حکومتی پارٹی میں شمولیت اختیار کی اور قوم کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا گیا۔ 3نومبر 2007 کو پرویز مشرف نے پاکستان میں ایمرجنسی لگا کر صدارتی نظام نافذکیا تھا اور جعلی ریفرنڈم کے ذریعے خود کو ملک کا صدر منتخب کرایا تھا۔ آج بھی یہی صورتحال نظر آرہی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑی برق رفتاری کے ساتھ پاکستان میں افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں کہ عوام تیار رہیں تین ماہ کے لیے پاکستان میں ایمرجنسی لگائی جا رہی ہے اور اسلامی صدارتی نظام کے لیے ریفرنڈم کرایا جائے گا۔
دنیا بھر کے اہم ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے جس امریکا، ایران، ترکی، چائنا، رشیا، عراق، لیبیا، سینٹرل ایشیاء کے ممالک شامل ہیں۔ خاص طور پر امریکا میں یہ نظام بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان جس دن سے اقتدار میں آئے ہیں بدقسمتی سے وہ روز ایک نئی مشکلات اور پریشانی میں مبتلا رہتے ہیں۔ اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے دوست اور ساتھی بھی غرا رہے ہیں۔ وزیراعظم صاحب ارکان اسمبلی اور اتحادیوں کی روز روز بلیک ملینگ سے بھی پریشان ہوگئے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں صدارتی نظام رائج کر کے بلیک ملینگ کی سیاست کا خاتمہ کردیں۔
سرد موسم میں شہر اقتدارکا سیاسی درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے اور ایمرجنسی کی بازگشت اسے اور زیادہ عروج دے رہی ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ آٹا، بجلی، پٹرول، چینی، گیس کی آئے روز بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ان کا پہلے ہی دیوالیہ نکال دیا ہے ایسے میں صدارتی نظام کی باز گشت اور زیادہ اضطراب پیدا کر رہی ہے۔ عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ایک کامیاب کپتان رہے ہیں اور ان کی قیادت میں پاکستان نے اپنا اولین ورلڈ کپ بھی جیتا ہے۔ اس کامیابی میں جہاں ٹیم اسپرٹ کا تعلق تھا وہاں عمران خان کی قائدانہ صلاحیتوں کا بھی بڑا عمل دخل رہا ہے۔ پوری ٹیم ان کے ایک اشارے پر جان لڑا دیتی تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست کپتان کے مزاج سے مختلف ہے۔ ان چار سال میں دال دلیا کے بھائوکا بھی انہیں اچھی طرح پتا چل گیا ہے۔ کے پی کے میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں بدترین شکست پر وہ بڑے افسردہ اور مایوس ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیر دفاع کے ساتھ ہونے والی تلخ کلامی بھی عوام کے سامنے آئی جس پر ان کے خیر خواہوں نے انہیں صدارتی نظام کا مشورہ دیا۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جو ہمیشہ ایسے موقع کی تاک میں رہتی ہے اور ایک نیا شریف الدین پیر زادہ نمودار ہوتا ہے اور صدارتی نظام کی بساط بچھا دیتا ہے۔ کپتان کی جانب سے ریاست مدینہ کا خواب دیکھانے کے بعد ’’اسلامی صدارتی نظام‘‘ بھی ایک خواب، دھوکا اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔